عبقری نے لاعلاج سسکتے مریضوں کی صحت یابی کیلئے اکابر ؒ کاآزمودہ نورانی عمل دکھی مخلوق خدا کیلئے عام کردیا۔تانبے کا کڑا جس پر خاص نورانی حروف لکھے ہوئے ہیں جو لاعلاج مرض کو چند ہی دنوں میں جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔اسلام حلال وحرام کے حوالے سے نہایت حساس مذہب ہے لیکن بوجہ مجبوری زندگی بچانے کو واجب قرار دیا اوربعض ممنوعہ چیزوں کوبھی حلال کر دیا۔آئیے پیارے آقا ﷺ کی زندگی سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
أبي داؤد، السنن، 4: 92، رقم: 4232، دار الفکر ترمذي، السنن، 4: 240، رقم: 1770، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
بخاري، الصحيح، 3: 1069، رقم: 2762 مسلم، الصحيح، 3: 1646، رقم: 2076، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
الدر المختار میں ہے:”(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئًا من ذلك لا حد عليه وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد) كذا في الجوهرة.”(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الأشربة (6/ 458)،ط. سعيد)فتاوی شامی میں ہے:”وبه علم أن المراد الأشربة المائعة، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميا قتالا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية.”(حاشية ابن عابدين: باب حد الشرب، مطلب في البنج والأفيون والحشيشة (4/ 42)،ط. سعيد)فقط، واللہ اعلمفتوی نمبر : 144211201551 ۔۔ دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
کڑا تو مفتیان کرام، علماء نے بھی استعمال کیا
حوالہ نمبر ۱
"فتویٰ تا تارخانیہ” فتویٰ کی اور دین کی وہ مشہور عالم ایک ضخیم کتاب ہے جس سے اب تک لاکھوں علماء فقہاء اور مفتیان کرام نے استفادہ کیا۔ آئیں! اس کتاب سے فتوی پوچھتے ہیں
(بحوالہ : شرح فتوی تا تارخانیہ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 248 مطبع منشی نول کشور لکھنو)
علی برادرانؒ کے مرشد نے بھی کڑا پہنا
حوالہ نمبر ۲
آخر بیماری کے دوران والد صاحبؒ کو ان کے مرشد نے تانبے کا کڑا پہنے کا فرمایا۔ انہوں نے کڑ ابنوا یا بازو کے اوپر پہنتے تھے تا کہ نظر نہ آئے ۔ واقعی انہیں بہت فائدہ ہوا فرماتے تھے بھائی شریعت نے آسانیاں اگر بتائی ہیں تو بھی ہمارے لیے اگر پابندیاں بتائیں ہیں تو بھی ہمارے لیے ہم پابندیوں کو تو بتا دیتے ہیں اور آسانیاں چھپا دیتے ہیں۔ اس کے بعد والد صاحبؒ نے کئی آنے والوں کو اس کڑے کے فوائد بتائے۔ بس نظر نہ آئے اور لوگ انہیں استعمال کرتے اور واقعی انہیں بھی فائدہ ہوتا تھا۔
42 مفتیوں اور 84 علماء کا فتویٰ
حوالہ نمبر ۳
سلطان اور نگزیب عالمگیر وہ متقی نیک اور مخلص عالم تھے جو بغیر شریعت کے کوئی کام نہیں کرتے تھے یہ وہی تھے جنہوں نے "فتویٰ عالمگیر” جس سے آج کروڑوں لوگ دین اور شریعت سیکھ رہے ہیں انہوں نے علماء کی زیر نگرانی اس کو لکھوایا بنوایا اور چھپوایا۔ ان کے سوانح میں کیا لکھا ہے ذرا پڑھیں:
”سلطان اور نگزیب مسلسل تخت نشین رہتے اور علماء کے فتوی میں دن رات ساتھ دیتے تھے تو ان کے گھٹنوں، جوڑوں اور کمر میں درد بہت زیادہ ہو گیا چونکہ بڑھاپا بھی تھا اور جسم کمزور ہو گیا۔ اس وقت بے شمار علماء کی ایک بہت بڑی جماعت تھی، جس میں 42 بڑے مفتی 84 بڑے علماء اور بڑی بڑی ہستیوں نے اپنا تجربہ بیان کیا کہ آپ اپنے بازو میں تانبے کا کڑا پہن لیں بطور علاج تاکہ آپ کو راحت ملے چونکہ سلطان ہر چیز علماء سے پوچھ پوچھ کر چلتے تھے اس لیے علماء کے بتانے پر بادشاہ نے وہ کڑا بازو کے اوپر پہنا او پر شاہی پوشاک تھی واقعی انہیں فائدہ ہوا اور نفع ہوا۔“
بحوالہ کتاب : ” بر صغیر میں مغلیہ دور کے منفر د سلاطین “مصنف سید اقتدار اختر ندوی مکتبہ ندوۃ العلماء لکھنؤ صفحہ نمبر 43 سے 46 تک اس واقعہ کی مکمل وضاحت موجود ہے۔
مفتی اعظم پاکستان نے بھی یہ عمل کیا !
حوالہ نمبر ۴
حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ جامعہ فاروقیہ کراچی کے پاس شیخ الوظائف تشریف لے گئے ان کے پاؤں کی بطور علاج مالش کی توان کے پاؤں کی چھوٹی انگلی میں تانبے کا چھلہ تھا جو انہوں نے بطور علاج گردے کیلئے 1970 ء کے بعد سے پہنا ہوا تھا اور خود فرماتے کہ میرا ایک گردہ ہے اور مجھے بطور ٹوٹکہ بتایا اور میں نے علاج کیا تو مجھے بہت فائدہ ہوا۔
حضرت مولانا ابوالحسن ندویؒ کے والد نے بھی کڑا پہنا !
حوالہ نمبر ۵
جب ہمارے حصے تقسیم ہوئے تو میں نے کچھ نہیں لیا، بس والد صاحب کے استعمال شدہ شدہ چیزیں لیں، تو ان میں میرے حصے میں تانبے کا ایک کڑا جو بھاری بھی تھا، اس پر کوئی تحریری الفاظ کنندہ تھے پرانا ہونے کی وجہ سے وہ پڑھے نہیں جاتے ۔ والد صاحب علالت اور بیماری کی حالت میں یہ پہنا کرتے تھے۔ انہیں کسی نے بتایا تھا تو پھر انہوں نے سالہا سال اسے استعمال کیا۔ اسے بھی میں نے بطور تبرک اپنے پاس رکھا کیونکہ وہ میرےوالد کی نشانی تھی ۔
( بحوالہ کتاب: ” زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے” تذکرہ والد محترم حضرت مولانا ابوالحسن ندویؒ صفحہ نمبر 249، مکتبہ امدادیہ، دار العلوم مہاراشٹر بمبئی)