ماہنامہ عبقری میں شائع ہونے والے سلسلہ وار کالم ‘‘جنات کا پیدائشی دوست‘‘ کے متعلق کچھ عقل پرست لوگوں کی طرف سے فتویٰ لگا دیا جاتا ہے کہ یہ محض ’’جھوٹے قصے کہانیاں‘‘ ہیں حالانکہ اگر انہیں اپنے اکبر و اسلاف کے متعلق تھوڑی سی بھی خبر ہوتی تو وہ اس بات کی تہہ تک پہنچ جانے کہ عامہ لاہوتی پر اسراری دامت برکاتہم جیسی مقبولِ خدا ہستیاں ہر دور میں موجود رہی ہیں۔ دُور مت جائیں، صرف ڈیڑھ صدی پہلے کے عظیم محدث، مرجع خلائق حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے ’’علامہ لاہوتی پر اسراری‘‘ تھے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے سوانح نگار مولوی ظہیر الدین سید احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک دن جمعے کی نماز کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ کی خدمت میں دو آدمی آئے اور ایک مشکل مسئلہ پوچھا۔ آپ نے جواب دیا تو وہ کہنے لگے کہ آپؒ نے بالکل درست فرمایا کیونکہ ہم نے یہی مسئلہ امیر الموٰمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا تھا تو انہوں نے یہی جواب ارشاد فرمایا حضرت شاہ صاحبؒ نے ان جنات سے پوچھا: جس وقت تم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت کی تھی، تب تمہاری عمر کتنی تھی؟ بولے ’’پانچ سو برس‘‘ یعنی ہماری عمر کم و بیش 18 صدیاں بنتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گئے۔
بحوالہ کتاب: کمالاتِ عزیزی، صفحہ 34
ناشر: مکتبہ رحمانیہ، 118 اردو بازار، لاہور
قارئین! اگر عبقری میں ’’جنات کا پیدائشی دوست‘‘ محض قصے کہانیاں ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ نعوذباللہ اتنے بڑے محدث شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کی زندگی بھی صرف جھوٹ پر قائم تھی۔ اسلاف سے بیزار اور عقل پرست لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ سائنس کی طرح دین کی ہر بات پر بھی کبھی کبھار بغیر دیکھے یقین کر لینا چاہئے۔