حواله نمبر 1
بارھویں صدی کے مجد د حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فرمایا کہ ایک بار مجھے شرف زہرہ اور شرف قمر کے اوقات میں دو انگوٹھیاں بنوانے کا اتفاق ہوا اور وہ دونوں انگوٹھیاں دو عورتوں کو دی گئیں۔ تھوڑے دنوں بعد وہ دونوں سخت تکلیف میں مبتلا ہو ئیں۔ بہت علاج کیا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ روز بروز تکلیف بڑھتی گئی اور اس کا سبب معلوم نہ ہو سکا۔ آخر ایک روز مراقبے کے دوران یعنی حالت کشف میں ان دونوں انگوٹھیوں نے ہمارے سامنے شکایت کرنا شروع کی اور حد سے زائد گلے شکوے کیسے کہ ہم کو بغیر طہارت استعمال کیا جاتا ہے اور ہماری حرمت ( پاکیزگی ) کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ جس کی وجہ سے ہم بہت اذیت میں ہیں اور ان عورتوں کی بیماری کا بھی یہی سبب ہے۔ پس میں نے ان عورتوں کو انگوٹھیاں اتارنے کا حکم دیا اور جب ان سے لے کر احتیاط سے پاک وصاف جگہ پر رکھ دیا تب ان دونوں نے شفا پائی۔ پھر میں نے بہت تاکید اور سختی سے کہہ دیا کہ ان کو بغیر طہارت ہرگز نہ پہنا جائے۔
شرائط کی ادائیگی کے بعد ان انگوٹھیوں میں سے ایک نے جو شرف قمر سے متعلق تھی مصالحت کر لی لیکن جو شرف زہرہ سے متعلق تھی اس کو بمقابلہ اول شکایت زائد تھی وہ مصالحت کے لئے تیار نہ ہوئی چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد وہ گھر سے گم ہوگئی اور چند روز بعد اصحاب میں سے ایک کی جیب سے برآمد ہوئی گو یا وہ ز نانخانہ میں رہنے پر راضی نہ تھی۔ لہذا وہ ضرورتا اپنے پاس رکھ لی گئی اور اس طرح ایک دوسرے شخص نے بھی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کے استعمال کی احتیاط نہ برقی اس انگوٹھی نے بھی ہم سے شکایت کی اور ایسا معلوم ہوا کہ جس روحانی ساعت میں وہ انگوٹھی بنائی جاتی ہے اس کی روحانیت ، کمال اور برکت اس انگوٹھی میں شامل کر دی جاتی ہے۔ اور یہ بھی واضح ہو کہا تمام ستاروں کی روحانی طاقتیں فطری طور پر طہارت کی طرف مائل ہیں۔ یعنی جو شخص جتنازیادہ پاک صاف رہے گا، خوشبو کا اہتمام کرے گا، اسے ان ساعتوں کی اتنی ہی زیادہ تا ثیر حاصل ہوگی۔ (بحوالہ : حالات و واقعات و ملفوظات حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی القول البلی فی ذکر آثار الولی۔ صفحہ 187،213- مسئولف: حضرت مولانامحمد عاشق پھلتی۔ شاکر پبلی کیشنز لا ہور )
https://archive.org/details/AlQaululJaliFizikarAsarEwaliByMaulana MuhammadAshiqPhulti/mode/2up (القول الحیلی کتاب کا آن لائن لنک)
حواله نمبر 2
چاندی کے علاوہ کسی دھات کا چھلہ پہننے کے جواز میں فتویٰ
سوال (۱۰۳۷۶): کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: چہرے پر دانوں کے علاج کے لیے تانے کا چھلہ پہنا درست ہے یا نہیں؟
جواب : تانے کا چھلہ پہنے سے چہرہ پر دانے نہیں ہوتے تو اس کی شرعاً کوئی اصل نہیں ہے، اور اگر واقعی کسی حکیم یا طبیب نے بطور علاج دانوں کے ختم کرنے کے لیے تانبہ کا چھلہ بتایا ہواور تجربہ سے اس کا فائدہ ظاہر ہو چکا ہوتو ایسی صورت میں بطور علاج تانبہ کا چھلا پہنے کی گنجائش ہے۔
(مستفاد: محمود یہ قدیم ۴۲۱/۱۴، ڈابھیل ۱۹ / ۳۶۳، رحیمیہ قدیم ۲۷۹/۶، جدید زکریا ۱۰ / ۱۵۷) بھی الکلام فی بند الساعة الذي تربط به ويعلقه الرجل بزرثو به، والظاهر انه کهند السميه الذي تربط به (شامی، کتاب الحظر ال اباحه ، باب الاستبراء وغیر و زکریا ۹ / ۵۱۰، کراچی ۳۵۴/۶) فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
کتبه: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ فتاوی قاسمیہ، جلد 23 (الف فتوی نمبر : ۷۱۲۷/۳۵)
حواله نمبر 3
ریشمی کپڑے کا پہننا حرام لیکن اس سے فائدہ اُٹھانا حرام نہیں
علامہ علاقی کی شرح ملتی میں ہے ریشمی مصلی پر نماز پڑھنا کر وہ نہیں کیونکہ اس کا صرف پہنا حرام ہے۔ لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے باقی تمام طریقے حرام نہیں جیسا کہ صلوۃ الجواہر میں مذکور ہے اس کو قہستانی وغیرہ نے برقرار رکھا ہے۔ اس کو دو عالموں یعنی علامہ شامی اور علامہ طحطاوی نے در مختار کے حواشی میں نقل کرتے ہوئے قائم رکھا ہے۔ (ت)
(الدر المنتقى في شرح المنتقى على هامش مجمع انه شرح ملتقى الحركتاب الكراهية دار احیاء التراث العربی بیروت ۲/۱)
حواله نمبر 4
مردوں کے لیے چاندی کی انگوٹھی ( چھلہ ) پہنے کا حکم
سوال: مردوں کے لیے بغیر نگینے کی انگوٹھی (یعنی چاندی کا چھلہ) پہننا کیسا ہے؟ امید ہے کہ آپ مدلل جواب عنایت فرمائیں گے!
جواب: مردوں کے لیے چاندی کی انگوٹھی چھلہ پہننا جائز ہے، بشرطیکہ اس کا وزن ایک مثقال سے کم ہو۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! میں کسی دھات کی انگوٹھی پہنوں ، تو آپ سنی یا ہی ہم نے فرمایا: چاندی کی ،مگر اس کا وزن ایک مثقال تک نہ پہنچے ۔ حدیث میں چوں کہ نگینے یا بغیر نگینے والی انگوٹھی کی تفصیل نہیں ہے، اس لیے بغیر نگینے کے چھلہ پہننا بھی جائز ہوگا ، اصل بات یہ ہے کہ چاندی کا وزن ساڑھے چار ماشے تک نہ پہنچے۔ الدر المختار وحاشیة ابن عابدین ( ردالمختار ) (358/6)، (فتوی نمبر : 144008200638، دار الافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
حواله نمبر5
دھات کے چھلے، ہاتھی کا دانت گٹھلی لکڑی وغیرہ بطور علاج استعمال کرنا
سوال (۱۰۳۷۷): کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : کسی بیماری کی وجہ سے کوئی کسی چیز کی گٹھلی یا خشک پھل لکڑی یا کسی قسم کا پتھر ہاتھ پیر اور گلے میں ڈال سکتے ہیں ، بہت لوگوں کو ہاتھی کا دانت جیسی چیز ، پیروں میں باندھے ہوئے دیکھا گیا ہے، اور مختلف قسم کے دھاتوں سے بنی انگوٹھی چھلہ کسی بیماری، بواسیر وغیرہ کے لیے ہاتھوں میں ڈال سکتے ہیں یا نہیں ؟ شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: مذکورہ اشیاء کو امراض کی وجہ سے دفع امراض کے لیے استعمال کرنے کا تعلق کسی فقہی مسئلے سے نہیں ہے، بلکہ فن طب اور تجربہ سے اس کا تعلق ہے، اگر تجربہ سے ان اشیاء کا استعمال مفید ثابت ہو تو ضرور تا جائز اور درست ہے۔
(مستفاد: فتاوی محمود یہ قدیم ۴۲۱/۱۴، ڈابھیل ۱۹/ ۳۶۳) بھی الکلام فی بند الساعة الذي تربط به ویعلقه الرجل بزرثوبه، والظاہر نہ کبند السجة الذي تربط به (شامی، کتاب الحظر ال را باحته ، باب الاستبراء و غیره زکریا ۹ / ۵۱۰، کراچی ۳۵۴/۶) فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلمکتبہ : شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ ارربیع الثانی ۱۴۱۴ ۵ ( الف فتویٰ نمبر : ۳۳۹۱/۲۹) الجواب صحیحا حقر محمد سامان منصور پوری غفر له ۴/۱ / ۱۴۱۴
درج بالا مستند حوالہ جات سے بخوبی علم ہوتا ہے کہ ہمارے علم میں کمی ہے بطور علاج چھلہ پہنا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ شیخ الوظائف امت کو شرک ، بدعت اور دھو کے باز عاملین سے بچانے کیلئے شریعت مطہرہ کی حدود میں رہتے ہوئے، ایسے روحانی و جسمانی ٹوٹکے دیتے ہیں جس سے مخلوق خدا کا ایمان و مال محفوظ رہے ۔