محترم قارئین! روحانی عملیات میں دسترس حاصل کرنا، لوگوں کو وظائف اور تعویذات کے ذریعے مسائل مشکلات سے نکلنے کی ترغیب دینا اور اعمال سے پلنے ، اعمال سے بننے اور اعمال سے بچنے کے پیغام کو عام کرنا ہر دور کے اکابرین امت کے ہاں رواج پذیر تھا۔ اہل علم حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بر صغیر کی عظیم درسگاہ دارالعلوم میں جہاں قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر ، صرف ونحو علم کلام، علم منطق وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی، و ہیں با قاعدہ طور پر علم طب اور علم روحانیت کا بھی مکمل انتظام تھا، تا کہ وہاں سے فراغت پانے والا ہر عالم دین معاشرے پر بوجھ بنے کی بجائے مخلوق خدا کیلئے خیر و برکت کا ذریعہ بن جائے ۔ آج مدارس میں تعلیم کتاب و سنت تو عام ہے، مناظرے کا فن بھی سکھایا جاتا ہے لیکن روحانیت اور طب و حکمت کا سبق نا پید ہو چکا ہے۔ اکابر و اسلاف کی اسی ترتیب کو باقی رکھنے کیلئے ماہنامہ عبقری اپنی بساط کے مطابق طب اور روحانیت کو پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے اکابر کو روحانی علوم میں کیسا کمال حاصل تھا؟ آئیے دیکھتے ہیں۔ مولانا محمد انوربن اختر مدظلہ لکھتے ہیں کہ: شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے ایک شاگرد مولانا فراغت علی صاحب سے خاص تعلق تھا۔ وہ انہیں ” میرے چاند” کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک رات فضا میں ایک روشن دان جار با تھا۔ حضرت نے فرمایا: میرے چاند ! اگر تم چاہو تو میں اس روشن دان کو نیچے اتار دوں ؟ مولانا فراغت علی صاحب نے دلچسپی ظاہر کی تو حضرت نے روشن دان کو حکم دیا ، وہ نیچے اتر آیا۔ اس میں ایک پتلا تھا ، جس میں سوئیاں چبھی ہوئی تھیں۔ حضرت رائے پوری رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا: تم کون؟ پہلے میں سے آواز آئی کہ میں جادو ہوں۔ حضرت نے فرمایا: میری بات مانو گے یا اپنے جادو گر کی؟ کہنے لگا: حضرت میں تو آپ کی بات مانوں گا۔ فرمایا: میرے رائے ہے کہ جہاں سے آئے ہو، وہیں واپس لوٹ جاؤ۔ چنانچہ وہ لوٹ گیا اور بعد میں سنا گیا کہ وہ جادو گر مر گیا ہے۔ حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے : اس بد بخت نے اس طرح نہ جانے کتنے لوگوں کو ہلاک کیا ہو گا! حوالہ کتاب: اکابر کے ایمان افروز واقعات صفحہ 138 ناشر: شعبه تحقیق و تصنیف، ادار و اشاعت اسلام، کراچی)