حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جنات کا پیدائشی دوست“ کون تھا ؟

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک کیلئے جارہے تھے۔ صحرا کے دو درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جابر ! ان درختوں سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت کیلئے پردہ درکار ہے، لہذا اے درختو ! تم آپس میں مل جاؤ تا کہ تمہارے پردے کی آڑ کو استعمال کیا جا سکے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے درختوں کو یہ حکم سنایا تو انہوں نے فورا تعمیل کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو میں پانی کا برتن لے کر حاضر ہوا ۔ میں نے دیکھا کہ زمین بالکل خشک تھی اور قضائے حاجت کا نشان تک نہ تھا۔ میری حیرانی کو دیکھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جابر ! زمین کو حکم ہے کہ وہ میرے فضلات کو جذب کرلیا کرے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ابھی ہم کچھ دور گئے ہوں گے تو اچانک ایک بہت بڑا اژدها نمودار ہوا۔ جو اونٹ کی گردن کے برابر موٹا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ہماری سواریاں بدک گئیں۔ وہ اژ دھا سیدھا حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کنڈلی مار کر اپنی دُم پر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اپنا منہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کان مبارک کے قریب کر دیا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے صحابہ کرام سخت پریشان تھے۔ کچھ دیر بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اژدھے کے کان میں کچھ فرمایا تو اژ دھا نظروں سے یوں غائب ہو گیا، جیسے اسی جگہ زمین میں سما گیا ہو۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا بلا تھی ؟ فرمایا : یہ سانپ نہیں، بلکہ جنات کا قاصد تھا۔ میں نے جنات کے ایک گروہ کو مسلمان کر کے انہیں قرآن کی ایک سورت یاد کروائی تھی۔ اب انہیں چند آیات میں مشابہ لگ گیا تھا تو اس کی اصلاح کیلئے انہوں نے اس قاصد کو بھیجا جسے میں نے دوبارہ یاد کروادیا ہے(بحوالہ کتاب: جامع المعجزات فی سیر خیر البریات صفحہ101 مصنف: شیخ محمد الواعظ الرھاوی ناشر: فرید بک سٹال اردو بازار لاہور )
محترم قارئین ! اس سے ثابت ہوا کہ ہر دور میں ایسی بزرگ ہستی موجود رہی ہے، جس کی غلامی اختیار کرنا جنات اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ ہاں البتہ یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے رسول تھے جن کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے لیکن ان کا عنایت کردہ دین سیکھنے سکھانے کی محنت تو قیامت تک جاری رہنی ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام سے جنات نے دین سیکھا ان کے بعد تابعین سے پھر تبع تابعین سے پھر فقہاء ومحدثین سے اور پھر اولیاء وصالحین سے ۔۔۔ یہی سلسلہ چلتے چلتے دور حاضر میں حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ تک پہنچا جو عبقری میگزین میں ہر ماہ سلسلہ وار کالم کے ذریعے جنات کے ساتھ بیتے سیچی زندگی کے سچے واقعات بیان کرتے ہیں

عبقری کا پتہ

جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025