مولانا شبیر حسن چشتی نظانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مجھے بعض اساتذہ کی زبانی معلوم ہوا کہ دار العلوم میں جنات بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ دار العلوم کے مہتمم حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک رات بارہ بجے گشت کے دوران دیکھا کہ ایک بند کمرے میں دوسانپ آپس میں کھیل کو د کر رہے ہیں، جبکہ ان کے سامنے کتابیں کھلی ہوئی موجود ہیں۔ حضرت مہتمم صاحب نے انہیں ڈانٹتے ہوئے فرمایا: یہ وقت کھیلنے کودنے کا ہے یا مطالعہ کرنے کا؟ یہ سنتے ہی دونوں سانپ انسانی شکل میں آگئے اور ان سے معذرت کرنے لگے کہ آئندہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔ اسی طرح طالب علمی کے زمانے میں حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میرے خصوصی تعلقات تھے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ شاہ صاحب ! میرا دل چاہتا ہے اپنی آنکھوں سے جنات کو دیکھوں۔ فرمانے لگے: اچھا ٹھیک ہے اس شب جمعہ میں تمہیں دکھا دیں گے۔ چنانچہ جمعے کی رات مجھے تقریباً ایک بجے اٹھا کر فرمایا: جاؤ، فلاں مقام پر تمہیں اس ہیئت کے دو شخص ملیں گے ان سے کوئی بات نہ کرنا۔ مجھے جنات کو دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ ننگے پاؤں ہی چل پڑا اور ان کے قریب پہنچ کر ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ دارالعلوم کی مسجد تک تو میرا اور ان کا ساتھ رہا لیکن مسجد میں داخل ہوتے ہی وہاں مجھے کوئی نظر نہ آیا۔ وہ دونوں جنات دراز قد اور سفید پوش تھے۔ آپس میں باتیں کر رہے تھے مگر میں نہ سمجھ سکا کہ وہ کس زبان میں گفتگو کر رہے ہیں ( بحوالہ کتاب: جنات کے پر اسرار حالات، صفحہ 162 ناشر : آستانہ بک ڈپو دہلی)