جانوروں کی خدمت۔۔۔ رب سے ملانے کا ذریعہ
شیخ الوظائف دامت برکاتہم اپنے اکثر دروس میں جانوروں کی خدمت کا تذکرہ فرماتے ہیں آج اکابر پر اعتماد کے دوستوں کیلئے اس راز سے پردہ ہٹاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خدمت ایک بہت بڑی سعادت ہے جس کے ذریعے دنیا اور آخرت کی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات امن وسلامتی پر مبنی ہیں یہاں تک کہ اسلام جانوروں تک کے حقوق بتلاتا ہے۔ (1) ایک بد چلن عورت کی محض اس عمل پر مغفرت ہوگئی کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو جو مر نے کے قریب تھا پانی پلایا تھا ( بخاری )۔(2) ایک محدث کی اس بات پر مغفرت ہوگئی کہ انہوں نے ایک پیاسی مکھی کی خاطر اپنا قلم روک لیا تھا اور کھی نے وہ سیاہی چوس لی۔ (3) ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ بلی بھوک سے مرگئی ( مسلم )۔ (4) حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ابرار کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ ابرار وہ ہوتے ہیں جو چیونٹی تک کو بھی تکلیف نہیں پہنچاتے ۔ (5) ایک اونٹ نے آپ سلیم کے پاس زیادہ کام اور زیادہ وزن اٹھانے کی شکایت کی تو آپ سنی یا یہ تم نے اس کے مالک سے فرمایا کہ اسے کھانا بھی پورا کھلایا کرو اور کام بھی اتنا کراؤ جتنا یہ کر سکے۔ ایک چڑیا پر رحم کی وجہ سے قیامت کے دن اس کے ساتھ رحم کا معاملہ کیا جائے گا ( مطالب عالیہ ) ۔ علامہ نووی فرماتے ہیں کہ ہر جاندار کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا کھانا پینا دینا باعث ثواب ہے۔ صالح بن کیسان بلی اور کبوتروں کی خدمت کرتے ، عدی بن حاتم چیونٹیوں کیلئے بار یک روٹی رکھا کرتے تھے ( بیہقی) (6) گھوڑے وغیرہ پر اگر سفر کرو تو اگر سرسبز علاقہ ہو تو پھر درمیان میں وقتاً فوقتاً وقفہ کرلو تا کہ جانور اپنی خوراک کھالے اگر خشک سالی ہوتو پھر تیز چلو تا کہ منزل پر پہنچ کر جانور کو آرام کا موقع ملے اور پھر جب منزل پر پہنچو تو پہلے جانوروں کے کھانے پینے کا انتظام کرو ، پھر اپنا کام کرو ۔ شیخ احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کو ایک بلی کی خدمت کرنے پر اونچا مقام ملا۔ بلی کے بچے کی دعا سے ایک بزرگ کی مغفرت ہوگئی۔