ماہنامہ عبقری پر اعتراض کرنے والے ضرور پڑھیں ۔۔۔!

 اللہ کریم کی توفیق سے ماہنامہ عبقری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو  دیکھ چند ایسے لوگ جن کا کام صرف اعتراض کرنا ہی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس وہ میں ضعیف روایات ذکر کی جاتی ہیں تو آئیے! ایسے لوگوں کو ہم خو د جواب نہیں دیتے بلکہ ماہنامہ بینات جواب دیتا ہے جو کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کا ترجمان ہے اور ان کے علمی مزاج میں رخصت سے عزیمت زیادہ ہے-

جس گناہ کے بعد پشیمانی نہ ہو، اندیشہ ہے کہ اسلام سے خارج کر دے۔ (حضرت مجددالف ثانی پیہ)

فضائل اعمال اور انکار ضعیف احادیث جناب عبد المنان معاویہ الہ آباد، لیاقت پور ضلع رحیم یارخان

برادرانِ اسلام میں سے بعض دوست ریحانہ الہند ، محدث کبیر ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا سہارن پوری ثم مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ رحمۃ واسعہ کی مقبولِ عام کتاب فضائل اعمال کی مقبولیت عامہ سے خائف ہیں۔ علمی اعتبار سے اس معاملہ میں یتیم ہونے کی وجہ سے وہ کتاب فضائل مشتمل اعمال پر اعتراض کرتے ہیں کہ: فضائلِ اعمال نامی کتاب ضعیف و موضوع احادیث پر ہے۔ حالانکہ یہ اعتراض وہ اصولِ احادیث سے کم علمی کی بنا پر کرتے ہیں ۔ محدثین کے نزدیک ضعیف احادیث فضائل کے باب میں قابل قبول ہیں، ہاں ! عقائد کے باب میں قبول نہیں ہیں ، جیسا کہ امام اہل سنۃ والجماعة ، محقق عالم ڈاکٹر علامہ خالد محمود لکھتے ہیں کہ : ضعیف حدیث سے عقائد ثابت کرنا علم کے لیے ایک بہت بڑی آفت ہے، علم سے نا آشنا لوگ ضعیف روایات سے عقائد کا اثبات کرتے ہیں ۔“ آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۶) لیکن بُرا ہو تعصب کا کہ جس کی وجہ سے یہ اعتراض قائم کیا گیا اور عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فضائلِ اعمال میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔ سب ضعیف ہیں اور ضعیف احادیث قابل قبول نہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو ضعیف حدیث کی تعریف جان لیں ۔ مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب تحریر فرما ہیں : وہ حدیث ضعیف ہے جس کی سند موجود ہو ( یعنی موضوع اور من گھڑت نہ ہو ) لیکن اس کے راوی باعتبار یادداشت یا عدالت کے کمزور ہوں، لیکن اگر اُسے دوسری سندوں سے تائید حاصل ہو تو یہ قبول کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں کہ صرف فضائل اعمال میں انہیں لے لیا جائے گا، بلکہ ان سے بعض حالات میں استخراج مسائل بھی کیا جاسکتا ہے ۔ قیاس استنباط مسائل کے لیے ہی ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہ تضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دیتے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل” سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات احکام میں ہی

جمادى الأولى ١٤٤١ ۴۳

جو زیادہ پیسہ والا ہے، وہ زیادہ محتاج ہے۔ (حضرت شیخ سعدی می ) آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۵)چل سکتی ہے ، فضائل میں نہیں ، سو اس بات سے چارہ نہیں کہ حدیث ضعیف کا بھی اپنا ایک وزن ہے ، یہ من گھڑت نہیں ہوتی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضعیف احادیث صرف فضائل ہی میں نہیں ، بلکہ بعض اوقات مسائل میں بھی قابل قبول ہوتی ہے، اس لیے جو لوگ احناف کی ضد میں اس کی مخالفت کر رہے ہیں، انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ احناف کی ضد میں کہیں محدثین امت کے مسلک و فیصلے سے ہی رُوگردانی تو نہیں کر رہے ہیں ۔ الشیخ محمود طحان لکھتے ہیں :

يجوز عند أهل الحديث وغير هم رواية الأحاديث الضعيفة والتساهل في أسانيدها من غير بيان ضعيفها بخلاف الأحاديث الموضوعة فإنّه لا يجوز روايتها إلا مع بيان وضعها . (تیسیر مصطلح الحدیث ، اردو ، ص : ۱۱۰) اہل حدیث کے نزدیک ضعیف احادیث اور جن کی سندوں میں تساہل ہے ان کا ضعف بیان کیے بغیر روایت کرنا جائز ہے ، بخلاف موضوع احادیث کے کہ ان کو روایت کرنا ان کے موضوع ہونے کی وضاحت کے بغیر جائز نہیں۔“ نوٹ: اہلِ حدیث حضرات محدثین کرام کا لقب ہے، جیسا کہ غیر مقلد عالم حافظ زبیر علی زئی مرحوم نے بھی اپنی کتاب ” فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد ۲ صفحہ: ۲۹۴ پر تسلیم کیا ہے کہ : اهل حدیث حضرات محدثین کا لقب ہے۔“ ڈاکٹر علامہ خالد محمود ضعیف احادیث کو بیان کرنے کے بارے میں تحریر فرما ہیں کہ : علماء نے صرف پند و نصیحت، بیان قصص اور فضائل اعمال کے مواقع پر احادیث ضعیفہ کے بیان کرنے کو بلا اس کے ضعف بیان کیے جائز رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ کتب سیر میں آپ کو احادیث ضعیفہ بغیر تصریح کے بہت ملیں گی ، بخلاف احادیث موضوعہ کے کہ ان کا بیان کرنا حرام ہے ۔

آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۸)

درج بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ضعیف احادیث کا بیان کرنا فضائل میں جائز ہے اور اسے محدثین کرام (اہلِ حدیث ) قبول فرماتے ہیں۔ یہیں سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ خود کو طریق محدثین کے راہی کہلوانے سے کوئی اہلِ حدیث ( جو محدثین کا لقب ہے ) نہیں بنتا، جب تک اُس میں وہ شرائط وصفات نہ پائی جائیں جو ایک محدث کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ آپ غور فرمائیے ! کہ حضرات محدثین کرام تو ضعیف احادیث کو قبول فرما ئیں اور دامن محدثین تھا منے کے مدعی انکاری ہوں ، فیا للعجب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا حافظ ابن حزم اندلسی (۷۵۷ھ) امام اعظم ابو حنیفہ علیہ سے متعلق لکھتے ہیں:

۴۴ جمادى الأولى ١٤٤١م

تاریک دل وہ ہے جس میں اخلاق نہ ہوں ۔ ( حضرت خرقانی علی ) امام ابو حنیفہ کے تمام شاگرد اس پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہ کا طریقہ یہی تھا کہ آپ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دیتے تھے ۔”

(ابطال الرائے والقیاس والاستحسان ، ص: ۶۸ ، آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۵)

حافظ ابن قیم حنبلی (۷۵۱ ھ ) لکھتے ہیں :

امام ابو حنیفہ کے سب شاگرد اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ آپ کے ہاں حدیث ضعیف قیاس اور رائے پر مقدم تھی اور آپ نے اسی پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے … سو حدیث ضعیف اور آثار صحابہ کو قیاس پر مقدم کرنا امام ابو حنیفہ اور امام احمد دونوں کا فیصلہ ہے۔“

(اعلام الموقعین ، ج ۱، ص: ۸۸ – آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۶)

حافظ ابن قیم کا یہ فرمانا کہ : ” آپ نے اسی پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے” کا کوئی غلط : ” مطلب اخذ نہ کرے ، اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ کے مذہب میں ضعیف احادیث کو قیاس ورائے اور آثار صحابہ پر ترجیح حاصل ہے ۔ ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب لکھتے ہیں : حضرت امام ابو حنیفہ (۱۵۰ھ) کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ وہ حدیث کے بجائے قیاس سے زیادہ کام لیتے تھے، یہ درست نہیں ۔ جب وہ حدیث ضعیف کو بھی قیاس پر مقدم کرتے ہیں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ صحیح حدیث کو چھوڑ کر قیاس پر مقدم کرتے ہوں ۔ ضعیف حدیث کی سندیں گو وہ اپنی جگہ ضعیف ہوں لیکن اس کے راویوں کا اگر ان پہلے راویوں سے مل کر روایت کرنے کا مظنہ نہ ہو تو اس تعدد طرق حدیث ضعیف قوی ہو کر حسن لغیرہ تک پہنچ جائے گی لیکن اس کا فیصلہ حاذق محدثین ہی کر سکتے ہیں ، نہ کہ ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے ، نہ ہر ایک اس کا اہل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلى أَهْلِهَا ….. اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ امانتوں کو ان کے اہل لوگوں کے سپر د کرو۔“ حديث اصحابی کالنجوم "محدثین کے ہاں اسی طرق سے لائق قبول سمجھی گئی ، وہب بن جریر اپنے والد سے ، وہ حضرت اعمش سے ، وہ حضرت ابو صالح سے ، وہ حضرت ابو ہریرہ کی نیت سے اور وہ حضور اکرم ہی سے اسی طرح روایت کرتے ہیں :

أصحابي كالنجوم، من اقتدى بشيء ومنها اهتدى 66

"میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، جو ان میں سے کسی کی پیروی کر گیا ہدایت پالی ۔“

( آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۶)

نوٹ : مشکوۃ ، صفحہ : ۵۵۴ پر بھی یہ حدیث مختلف الفاظ سے موجود ہے ، محدث گنگوہی

۴۵ جمادى الأولى ٠١٤٤١

تصوف کے معنی یہ ہیں کہ حقائق کو اخذ کیا جائے اور ان تمام باتوں کو جو خلقت کے ہاتھ میں ہیں چھوڑ دیا جائے ۔ (حضرت معروف کرخی بی فرماتے ہیں کہ : ” یہ حسن لغیرہ تک پہنچ جاتی ہے ۔“ اسی طرح محقق عالم دین حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی لکھتے ہیں : مواعظ ، فقص اور فضائلِ اعمال کی احادیث میں علماء کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل جائز ہے، یعنی اس کے ضعف کو بیان کیے بغیر روایت کرنا جائز ہے، البتہ صفاتِ باری تعالیٰ اور حلال و حرام کی احادیث میں جائز نہیں ہے۔ شیخ الاسلام محقق على الاطلاق علامہ ابن الھمام لکھتے ہیں : "” الضعيف غير الموضوع يعمل به فضائل الأعمال. ( فتح القدير لابن الهمام ، ج:۱،ص:۳۰۳) ترجمہ: ” ضعیف جو کہ موضوع نہ ہو فضائل اعمال میں اس پر عمل کر لیا جاتا ہے۔“ ابن تیمیه با وجود اپنی تشدد پسندانہ طبیعت کے امام احمد کا قول نقل کرتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں ، چنانچہ لکھتے ہیں : 66 قول أحمد بن حنبل إذا جاء الحلال والحرام شددنا في الأسانيد وإذا جاء الترغيب والترهيب تساهلنا في الأسانيد وكذلك ماعليه العلماء من العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال. الفتاوى الكبرى لابن تیمیه، ج : ۱۸ ، ص: ۶۵) ترجمہ : امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ جب حلال و حرام کی بات آئے گی تو ہم اسانید کی جانچ پر رکھ میں سختی سے کام لیں گے، جب ترغیب و ترہیب کی بات آئے گی تو ہم اسانید میں اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل محقق ابن ہمام ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : تساہل برتیں گے ، اسی طرح وہ ہے جس پر علماء ہیں ۔ فضا جب 66 ” ولو ضعف فالمقام يكفي فيه مثله. “ ( فتح القدير، ج:۱، ص: ۳۱۸) اور اگر ضعیف بھی ہو تو یہ مقام ایسا ہے جس میں اس کی مثل یعنی ضعیف ہی کافی ہے۔“ امام نووی شارح مسلم لکھتے ہیں : الرابع أنهم قد يروون عنهم أحاديث الترغيب والترهيب وفضائل الأعمال والقصص وأحاديث الزهد ومكارم الأخلاق ونحو ذلك لا يتعلق بالحلال والحرام وسائر الأحكام، وهذا الضرب من الحديث يجوز عند أهل الحديث وغير هم التساهل فيه . ( شرح مسلم نووی ، ج:۱، ص: ۲۱) "” ترجمہ: چوتھی بات یہ ہے کہ محدثین ضعیف راویوں سے ترغیب و ترہیب، فضائل اعمال و قصص واحادیث، زہد و مکارم اخلاق اور ان جیسے موضوعات پر احادیث روایت کرتے جمادى الأولى ١٤٤١

صوفی اس وقت تک صوفی نہیں ہوتا جب تک کہ جملہ خلائق کو اپنا عیال خیال نہ کرے ۔ (حضرت جنید بغدادی ) ہیں، جن کا تعلق حلال و حرام اور احکام کے ساتھ نہ ہو اور حدیث کی اس قسم سے محدثین کے نزدیک روایت میں تساہل جائز ہے، جب کہ موضوع نہ ہو۔”

امام نووی لکھتے ہیں : دو ويجوز عند أهل الحديث وغير هم التساهل في الأسانيد ورواية ماسوى الموضوع من الضعيف والعمل به من غير بيان ضعفه من غير صفات الله تعالى والأحكام 66

كالحلال والحرام ومما لا تعلق له بالعقائد والأحكام. (تقریب، ص: ۱۶۲ ، ج:۱) ترجمہ : "محدثین و غیر ہم کے نزدیک تساہل اور ضعیف جو موضوع نہ ہو اس کو روایت کرنا ، اس پر عمل کرنا اس کے ضعف کو بیان کیے بغیر جائز ہے۔ ہاں! اللہ تعالیٰ کی صفات اور احکام مثلاً : حلال و حرام اور وہ چیزیں جن کا تعلق عقائد اور احکام سے ہو ان میں جائز نہیں ہے۔“ انوارات صفدر، افادات: حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی مرتب : مولانامحمود عالم صاحب ، ص: ۲۱۴ تا ۲۱۶) یہاں تک ہم نے محدثین کرام کی عبارات سے ثابت کیا کہ ضعیف احادیث کو بیان کرنا جائز ہے، لیکن ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں ضعیف حدیث کو بیان کرنا جائز نہیں ، اس کے متعلق ہم اوپر حضرت ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب کے حوالے سے درج کر آئے ہیں، ایک بار پھر ملاحظہ فرما سیجئے کہ دو ضعیف حدیث سے عقائد ثابت کرنا علم کے لیے ایک بہت بڑی آفت ہے۔ علم سے نا آشنا لوگ ضعیف روایات سے عقائد کا اثبات کرتے ہیں ۔ “ ( آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۶) غلط بات کو غلط ہی کہا جائے گا لیکن نا آشنا اور جاہل لوگوں کی ضد میں آکر ضعیف روایات کا سرے سے انکار کر دینا بھی تو عقل مندی نہیں ہے۔ ان مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ محدثین کرام کے نزدیک ضعیف احادیث فضائل اعمال میں قابل قبول ہیں۔ لہذا مندرجہ بالا اعتراض کی کوئی آئینی و شرعی حیثیت نہیں ہے، بلکہ مندرجہ بالا اعتراض معترضین کی جہالت اور اُن کی اصولِ حدیث سے بے خبری کو نمایاں کرنے کے لیے کافی ہے۔ پھر دیکھئے ! بہت سی ایسی کتب جن میں ضعیف احادیث بکثرت موجود ہوتی ہیں ، فضائل اعمال کی تالیف سے ایک زمانہ قبل موجود ہیں اور بہت سی کتب اب عرب ممالک میں شائع ہو رہی ہیں، جن میں خاص کر حافظ منذری کی مشہور عام کتاب الترغيب الترهيب “ بھی شامل ہے۔ فضائل اعمال پر معترض حلقہ اُس کتاب کے بارے میں خاموش ہے، اس کی کوئی خاص وجہ ….؟ بہر حال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ : کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے جمادى الأولى ١٤٤١م

عبقری کا پتہ

جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025