حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک دفعہ میں حمص سے چلا تو راستے میں رات کے وقت ایک جگہ وہاں کے جنات میرے پاس آگئے۔ میں نے اسی وقت سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی ” إِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ۔ یہ سنتے ہی جنات نے ایک دوسرے سے کہا : اب تو صبح تک اس کا پہرہ دینا پڑے گا۔ چنانچہ انہوں نے ساری رات ( مجھے تنگ کرنے اور ڈرانے دھمکانے کی بجائے ) میرا پہرہ دیا۔ صبح کو میں سواری پر بیٹھا اور آگے چل پڑا۔
(اخرجہ الطبرانی بحوالہ کتاب: حیاۃ الصحابه صفحه ۴۵۹ حصہ سوم، ناشر: زمزم پبلشرز، کراچی) علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ واپس لوٹے تو راستے میں مقام جحفہ پر قیام کیا اور فرمایا تم میں سے کون باہمت ہے جو فلاں کنویں سے پانی لے آئے ، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ایک صحابی نے عرض کی کہ میں جاتا ہوں۔ حضرت سلمہ بن اکوع ” بھی ان کے ساتھ تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب ہم کنویں کے قریب پہنچے تو وہاں کے درختوں سے عجیب وغریب آوازیں آرہی تھیں اور ان سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے۔ ہم ڈر کے واپس آگئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ جنات تھے، اگر تم میرے کہنے کے مطابق چلے جاتے تو وہ تمہیں کچھ نہ کہتے۔ پھر ایک اور جماعت بھیجی ، وہ بھی ڈر کر واپس لوٹ آئی۔ بالآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر پانی لینے بھیجا۔ ان کے ساتھ بھی ایک جماعت تھی جو ایسا خوفناک منظر دیکھتے ہی ڈر گئی حتی کہ ان خوفناک درختوں سے کٹے ہوئے سر ظاہر ہونے لگے ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ڈرو نہیں ! یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور ” اعوذ بالرحمان” پڑھتے ہوئے کنویں کے قریب پہنچ گئے۔ کنویں میں سے پانی نکالنا شروع کیا تو وہاں سے بھی قہقہوں کی خوفناک آوازیں آتی رہیں۔ مگر انہوں نے اطمینان سے پانی بھرا اور واپس آگئے۔ راستے میں ہاتف غیبی کی آواز آئی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں منقبت پڑھ رہا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر ماجرا سنایا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ با تف” عبد اللہ جن” تھا، جس نے بتوں کے شیطان مسعر کو کوہ صفا میں قتل کیا تھا۔
( بحوالہ کتاب: جن ہی جن صفحہ ۱۱۸ ناشر: سیرانی کتب خانہ، نزدسیرانی مسجد بہاول پور ) محترم قارئین ! اس سے ثابت ہوا کہ عبقری میگزین میں شائع ہونے والے سلسلہ وار کالم ” جنات کا پیدائشی دوست“ میں ہر بات برحق ہے، جو صرف موجودہ زمانے میں ہی نہیں، بلکہ ہمارے اکابر و اسلاف کے مبارک زمانے سے چلی آرہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اب بڑھتے ہوئے فتنوں کی وجہ سے ہمارے مطالعے میں کمی آگئی اور ہم نے حقائق کو بھی من گھڑت افسانہ کہنا شروع کر دیا۔ جبکہ بیسیوں کتابوں کے اوراق ایسے سچے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کوئی انہیں پڑھے تو سہی ،،،!

شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ جنات کی وادی میں پانی لینے پہنچ گئے
- اکابر پر اعتماد, بڑوں کے تجربات, جنات کا پیدائشی دوست, عبقری پر اعتراضات کا منصفانہ جواب
- قسط نمبر 308