انسانوں اور جنات کی شادی کا اکابر سے ثبوت
محترم قارئین ! عبقری کے ہر دلعزیز میگزین جنات کا پیدائشی دوست“ میں حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ہارون آباد (ضلع بہاولنگر) کے ایک رہائشی شخص کی جننی خاتون سے شادی ہونے کا تذکرہ فرمایا تھا۔ جسے پڑھ کر کئی لوگوں نے شک وشبے کا اظہار کیا کہ انسانوں اور جنات کی شادی کا بھلا کیا جواز ہے؟ اس سلسلے میں اگر چہ ہم پہلے بھی اکابر پر اعتماد کی کئی اقساط میں ثبوت فراہم کر چکے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کی قسط میں مولانا ابو احمد طه مدنی صاحب مدظلہ نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے!
حضرت ابو یوسف سروجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قوم جنات میں سے ایک جن عورت مدینہ منورہ میں ایک شخص کے پاس آئی اور کہا کہ ہم تمہارے گھروں کے پاس اترے ہوئے ہیں، تم مجھ سے نکاح کر لو۔ لہذا ان کا آپس میں نکاح ہو گیا۔ جب رات ہوتی تو وہ عورت انسانی شکل میں اس شخص کے پاس آجاتی ۔ وقت یونہی گزرتا گیا۔ ایک مرتبہ وہی عورت آکر کہنے لگی : ہم نے اب چلے جانا ہے تم مجھے طلاق دے دو۔ چنانچہ اس شخص نے اسے فارغ کر دیا۔ ایک دفعہ وہ مدینہ منورہ کے کسی راستے میں جارہا تھا کہ اچانک اپنی سابقہ بیوی ( جننی ) کو دیکھا جو راستے میں سے دانے بن رہی تھی۔ اس نے کہا: کیا تم وہی جن عورت ہو ؟ جس کی مجھ سے شادی ہوئی تھی؟ یہ سن کر اس خاتون نے غصے سے کہا: تم نے مجھے کس آنکھ سے دیکھا ہے؟ وہ شخص بولا : اس آنکھ سے ۔۔۔اس عورت نے دور سے ہی اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو بے چارے آدمی کی آنکھ بہہ پڑی (بحوالہ کتاب:
پرتاثیر واقعات، صفحہ 51 ناشر: مکتبہ یادگار شیخ ، غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور )