مزارات پر حاضری تعلیمات اکابر کی روشنی میں

شیخ الوظائف دامت برکاتہم کچھ روز قبل بخارا سمرقند اور تاشقند میں موجود بزرگوں کے مزارات پر حاضر ہوئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آپ کی اپنی کوئی نئی ایجاد ہے انہیں ہر گز نہیں بلکہ ہمارے تمام اکابر محقق علمائے کرام اور مشائخ ان بزرگوں کے مزارات پر جا کر استفادہ باطنی حاصل کرتے تھے۔
حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب سے جب یہ سوال کیا گیا کہ علماء دیو بند اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی قبروں اور مزارات پر جانے سے روکتے ہیں اور قبروں پر فاتحہ ودعا کو منع کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے اور افتراء باندھا جاتا ہے۔ علماء دیوبند کا مسلک یہ ہے کہ اولیاء اللہ اور اہل اللہ کی قبروں پر جانا انتہائی برکت اور فیض
حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔ دار العلوم کے مفتی اعظم حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب ہر سال حضرت مجددالف ثانی کے مزار پر عرس کے موقع پر حاضری دیا کرتے تھے اور خود سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دارالعلوم کے پہلے مہتم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب نقشبند یہ خاندان میں شاہ عبد الغنی صاحب محدث دہلوی سے بیعت تھے اور ان کا سلسلہ حضرت شاہ ولی اللہ سے ملتا ہے۔ دیو بند کے بزرگ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی، حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ان سب کا چشتی سلسلہ سے تعلق تھا اور یہ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیر کی اور حضرت صابر کلیری سے ہوتا ہوا حضرت علی سے جاملتا ہے۔ ہمارے اکا بر تقریباً جس قدر اولیاء اللہ اور بزرگان دین گزرے ہیں ان کے مزارات پر حاضری دیتے اور استفادہ کرتے۔ (بحوالہ: خطبات حکیم الاسلام، ج 7 ص 5- ترتیب: مولانا نعیم احمد، مدرس جامعہ خیر المدارس ملتان، ناشر مکتبہ امدادیہ ملتان )
محترم قارئین ! اللہ پاک سے یہ دعا سلسل مانگتے رہا کریں کہ اللہ کریم میں اپنے بڑوں پر کامل اعتماد عطا فرمائے کیونکہ وہ ہم سے زیادہ سمجھدار تھے۔۔۔! اور عبقری کے اکابر پر اعتماد کی خدمات کو قبول فرمائیں۔۔۔
تحریر مولانامحمدنواز صاحب فاضل جامعہ مظاہر العلوم )

عبقری کا پتہ

جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025