بغیر شملہ کے عمامہ ۔۔۔ تعلیمات اکا بر کی روشنی میں

میں نے شیخ الوظائف دامت برکاتہم کی زندگی کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے اللہ کے فضل وکرم سے آپ کی زندگی کا ایک ایک پہلو شریعت کے سانچے اور تعلیمات اکابر کی طرز زندگی میں ڈھلا ہوا ہے ۔ میں نے جہاں تک دیکھا آپ کی زندگی میں کوئی ایک پہلو بھی اکابر کی زندگی سے ہٹ کر نہیں پایا۔ عمامہ کے بارے میں موجود روایت پر تفصیلی نگاہ کرنے کے بعد علمائے کرام اور فقہائے عظام نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عمامہ کا شملہ سن زوائد میں سے ہے یعنی شملہ کا رکھنا اور نہ رکھنا دونوں طرح ٹھیک اور جائز ہے ذیل کی تفصیل سے یہ بات آپ کو با آسانی سمجھ میں آجائے گی : علمائے کرام فرماتے ہیں کہ شملہ چھوڑنے کی کوئی پابندی نہیں ہے اور شملہ ضروری نہیں ہے ۔ (1)۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ : دار الافتاء بنوری ٹاؤن کے مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ شملہ چھوڑنے اور نہ چھوڑنے دونوں کے بارے میں کوئی پابندی نہیں، دونوں ہی طرز درست ہیں ۔ عمامے کے کپڑے کے بارے میں کسی قسم کی تعیین احادیث میں وارد نہیں، جو کپڑا میسر ہو، عمامہ باندھا جا سکتا ہے۔(فتوی نمبر :143610200037)
(2)۔ امام نووی کا فتوی: شارح صحیح مسلم امام ابوز کر یا محی الدین کو وی رحمہ اللہ اپنی کتاب ” المجموع شرح المھذب میں عمامے کے شملے کے متعلق لکھتے ہیں کہ عمامہ شریف کا شملہ لٹکانا اورنہ لٹکانا دونوں برابر ہیں اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اختیار کرنا مکروہ نہیں ہے ( یعنی نہ عمامہ کا شملہ لڑکانے میں کوئی کراہت ہے اور نہ ہی ترک کرنے میں کوئی کراہت ہے ) ( الجموع شرح المھذب، ۴۵۷/۴) (3)۔ دارالعلوم کا فتوی (انڈیا): آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ کے دو شملے چھوڑنا ، ایک شملہ چھوڑنا اور بغیر شملہ چھوڑے عمامہ باندھنا ہر طرح ثابت ہے، پس تینوں طریقوں پر عمامہ باندھنا مسنون ہوگا : وقد ثبت فى السير بروايات صحيحة أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم كان يرخى علامته أحيانا بين كتفيه وأحيانا يلبس العمامة من غير علامة فعلم أن الإتيان بكل واحد من تلك الأمور سنة(مرقاة: ۲۵۰/۸ بحوالہ فتوی نمبر 9848) (4) ۔ شیخ علامہ عبدالحق دہلوی کا فتوی: حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شملہ لڑکا نا مستحب اور سنن زوائد( یعنی سنت غیر مؤکدہ) میں سے ہے۔ اسے ترک کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ (کشف الالتباس فی استحباب اللباس، ذکر شملہ ص ۳۹ ملخصا) (5)۔ حضرت مولانا احمد رضا خان رحمہ اللہ کا فتویٰ: حضرت مولانا احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: عمامہ کا شملہ رکھنا سنت عمامہ کی فرع اور سنت غیر مؤکدہ ہے۔ ( یعنی ضروری نہیں ہے اگر کوئی شملہ نہ رکھے تو گناہ گار نہیں ہوتا ) یہاں تک کہ مرقاۃ میں فرمایا : قد ثبت في السير برِوایاتِ صَحِيحَةٍ أَنَّ النَّبِي صَلَّى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّم كَان يَرخى علامته أحيانا بَينَ كَتِفَيهِ وَأحيانا يَلبَسُ العِمَامَةَ مِن غَيرِ عَلامَةٍ فَعُلِم أَنَّ الإِنيَانَ بِكُلِ وَاحِدٍ مِّن تِلكَ الأُمُورِ سُنَّة ( يعنى ) كتب سیر میں روایات صحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عامہ کا شملہ دونوں کاندھوں کے درمیان چھوڑتے بھی بغیر شملہ کے باندھتے ۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان امور میں سے ہر
ایک کو بجالا نا سنت ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثانی ۱۴۶/۸، تحت الحدیث :۴۳۳۹) (6)۔ ادارہ منہاج القرآن کا فتوی: عمامہ کی لمبائی ضرورت کے مطابق رکھ سکتے ہیں کوئی شرعی قید نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھنے کا کوئی طریقہ مختص نہیں فرمایا، لہذا جو مناسب ہو وہ طریقہ اپنا سکتے۔ (فتوی نمبر 4120) محترم قارئین! ان گزارشات کے بعد یہ بات آپ بخوبی جان چکے ہوں گے شیخ الوظائف لباس تک کے معاملے میں اپنے اکا بر کی تعلیمات پر سو فیصد کار بند ہیں تو دوسری چیزوں میں کیسے ان کی تعلیمات کو فراموش کر سکتے ہیں۔ شملہ کے ساتھ یا بغیر شملہ کے عمامہ پہننا دونوں طرح سے جائز ہے اور تعلیمات شرعیت اور تعلیمات اکابر کے عین مطابق ہے (مفتی محمد فرقان محمود متخصص جامعہ بنوریہ، کراچی)
۔

عبقری کا پتہ

جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025