رجال الغیب کا قرآن وحدیث میں ثبوت

محترم قارئین اتسبیح خانے میں ہونے والے شب جمعہ کے درس ہدایت میں حضرت شیخ الوظائف دامت برکاتہم العالیہ بعض اوقات رجال الغیب اولیائے کرام کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ ہماری اس کا ئنات میں کچھ ایسے مقربان بارگاہ الہی بندے بھی ہوتے ہیں، جن کی ڈیوٹیاں اللہ جل شانہ نے بعض مخصوص امور کی انجام دہی پر لگائی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ ایسی باتیں سن کر لاعلمی کی وجہ سے شرک کے شک میں پڑ جاتے ہیں، حالانکہ رجال الغیب ایک ایسا موضوع ہے، جس کے متعلق قرآن وسنت میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اللہ پاک جل شانہ نے سورۃ النازعات میں فرمایا ہے: فَالْمُدَتِرَاتِ آمرا ” ایسے فرشتے جو امور کی تدبیر میں لگے رہتے ہیں۔ یعنی بارش برسانا تو اللہ جل شانہ کا کام ہے، لیکن کب اور کہاں برسانی ہے، اس پر باقاعدہ فرشتہ مقرر ہے۔ رزق دینا اللہ جل شانہ کی شان ہے، لیکن مخلوق تک رزق پہنچانے پر فرشتے مقرر ہیں۔ اولا د دینا اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہے، لیکن حاملہ عورت کے پیٹ میں روح پھونکنے پر فرشتے کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح رجال الغیب اولیائے کرام کیلئے بھی مخصوص ڈیوٹیاں مقرر ہیں، جو وہ پوری ذمہ داری سے نبھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے اکا بر کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہما السلام بھی رجال الغیب میں شامل ہیں۔ مولانا امداد اللہ انور جامعہ اشرفیہ لاہور لکھتے ہیں : اہل بیت کے شہسوار حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام دونوں ہر سال موسم حج میں ملاقات کرتے ہیں اور ان کلمات پر علیحدہ ہوتے ہیں : بسم اللہ ماشاء الله لا يسوق الخير الا الله ، ما كان من نعمة فمن الله ،بسم اللہ ماشاء اللہ لا یصرف السوء الا الله ماشاء الله لا حول ولا قوة الا بالله یہ حدیث بیان کر کے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو شخص ان کلمات کو صبح و شام تین مرتبہ پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اسے غرق ہونے سے ،جل جانے سے، چوری ہونے سے،شیطان سے ، بادشاہ کے ظلم سے ، سانپ سے اور بچھو سے محفوظ رکھے گا (دار قطنی صفحه ۲۲۵، تاریخ ابن عساکر صفحه ۷۴۰ ، تہذیب تاریخ دمشق صفحه ۱۵۵، اتحاف السعادۃ صفحہ ۱۱۲ ، البدایہ والنہایہ صفحہ ۳۳۳، کنز العمال صفحه ۳۴۰، در منشور صفحه ۲۴۰ ، لسان المیزان صفحه ۹۲۰، شرح السنه صفحه ۴۴۳ بحوالہ کتاب: تاریخ جنات و شیاطین صفحہ 225 ناشر : دار المعارف تحصیل جلال پور، ملتان)
شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ جنات کی وادی میں پانی لینے پہنچ گئے

حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک دفعہ میں حمص سے چلا تو راستے میں رات کے وقت ایک جگہ وہاں کے جنات میرے پاس آگئے۔ میں نے اسی وقت سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی ” إِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ۔ یہ سنتے ہی جنات نے ایک دوسرے سے کہا : اب تو صبح تک اس کا پہرہ دینا پڑے گا۔ چنانچہ انہوں نے ساری رات ( مجھے تنگ کرنے اور ڈرانے دھمکانے کی بجائے ) میرا پہرہ دیا۔ صبح کو میں سواری پر بیٹھا اور آگے چل پڑا۔(اخرجہ الطبرانی بحوالہ کتاب: حیاۃ الصحابه صفحه ۴۵۹ حصہ سوم، ناشر: زمزم پبلشرز، کراچی) علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ واپس لوٹے تو راستے میں مقام جحفہ پر قیام کیا اور فرمایا تم میں سے کون باہمت ہے جو فلاں کنویں سے پانی لے آئے ، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ایک صحابی نے عرض کی کہ میں جاتا ہوں۔ حضرت سلمہ بن اکوع ” بھی ان کے ساتھ تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب ہم کنویں کے قریب پہنچے تو وہاں کے درختوں سے عجیب وغریب آوازیں آرہی تھیں اور ان سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے۔ ہم ڈر کے واپس آگئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ جنات تھے، اگر تم میرے کہنے کے مطابق چلے جاتے تو وہ تمہیں کچھ نہ کہتے۔ پھر ایک اور جماعت بھیجی ، وہ بھی ڈر کر واپس لوٹ آئی۔ بالآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر پانی لینے بھیجا۔ ان کے ساتھ بھی ایک جماعت تھی جو ایسا خوفناک منظر دیکھتے ہی ڈر گئی حتی کہ ان خوفناک درختوں سے کٹے ہوئے سر ظاہر ہونے لگے ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ڈرو نہیں ! یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور ” اعوذ بالرحمان” پڑھتے ہوئے کنویں کے قریب پہنچ گئے۔ کنویں میں سے پانی نکالنا شروع کیا تو وہاں سے بھی قہقہوں کی خوفناک آوازیں آتی رہیں۔ مگر انہوں نے اطمینان سے پانی بھرا اور واپس آگئے۔ راستے میں ہاتف غیبی کی آواز آئی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں منقبت پڑھ رہا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر ماجرا سنایا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ با تف” عبد اللہ جن” تھا، جس نے بتوں کے شیطان مسعر کو کوہ صفا میں قتل کیا تھا۔( بحوالہ کتاب: جن ہی جن صفحہ ۱۱۸ ناشر: سیرانی کتب خانہ، نزدسیرانی مسجد بہاول پور ) محترم قارئین ! اس سے ثابت ہوا کہ عبقری میگزین میں شائع ہونے والے سلسلہ وار کالم ” جنات کا پیدائشی دوست“ میں ہر بات برحق ہے، جو صرف موجودہ زمانے میں ہی نہیں، بلکہ ہمارے اکابر و اسلاف کے مبارک زمانے سے چلی آرہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اب بڑھتے ہوئے فتنوں کی وجہ سے ہمارے مطالعے میں کمی آگئی اور ہم نے حقائق کو بھی من گھڑت افسانہ کہنا شروع کر دیا۔ جبکہ بیسیوں کتابوں کے اوراق ایسے سچے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کوئی انہیں پڑھے تو سہی ،،،!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جنات کا پیدائشی دوست“ کون تھا ؟

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک کیلئے جارہے تھے۔ صحرا کے دو درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جابر ! ان درختوں سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت کیلئے پردہ درکار ہے، لہذا اے درختو ! تم آپس میں مل جاؤ تا کہ تمہارے پردے کی آڑ کو استعمال کیا جا سکے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے درختوں کو یہ حکم سنایا تو انہوں نے فورا تعمیل کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو میں پانی کا برتن لے کر حاضر ہوا ۔ میں نے دیکھا کہ زمین بالکل خشک تھی اور قضائے حاجت کا نشان تک نہ تھا۔ میری حیرانی کو دیکھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جابر ! زمین کو حکم ہے کہ وہ میرے فضلات کو جذب کرلیا کرے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ابھی ہم کچھ دور گئے ہوں گے تو اچانک ایک بہت بڑا اژدها نمودار ہوا۔ جو اونٹ کی گردن کے برابر موٹا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ہماری سواریاں بدک گئیں۔ وہ اژ دھا سیدھا حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کنڈلی مار کر اپنی دُم پر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اپنا منہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کان مبارک کے قریب کر دیا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے صحابہ کرام سخت پریشان تھے۔ کچھ دیر بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اژدھے کے کان میں کچھ فرمایا تو اژ دھا نظروں سے یوں غائب ہو گیا، جیسے اسی جگہ زمین میں سما گیا ہو۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا بلا تھی ؟ فرمایا : یہ سانپ نہیں، بلکہ جنات کا قاصد تھا۔ میں نے جنات کے ایک گروہ کو مسلمان کر کے انہیں قرآن کی ایک سورت یاد کروائی تھی۔ اب انہیں چند آیات میں مشابہ لگ گیا تھا تو اس کی اصلاح کیلئے انہوں نے اس قاصد کو بھیجا جسے میں نے دوبارہ یاد کروادیا ہے(بحوالہ کتاب: جامع المعجزات فی سیر خیر البریات صفحہ101 مصنف: شیخ محمد الواعظ الرھاوی ناشر: فرید بک سٹال اردو بازار لاہور )محترم قارئین ! اس سے ثابت ہوا کہ ہر دور میں ایسی بزرگ ہستی موجود رہی ہے، جس کی غلامی اختیار کرنا جنات اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ ہاں البتہ یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے رسول تھے جن کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے لیکن ان کا عنایت کردہ دین سیکھنے سکھانے کی محنت تو قیامت تک جاری رہنی ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام سے جنات نے دین سیکھا ان کے بعد تابعین سے پھر تبع تابعین سے پھر فقہاء ومحدثین سے اور پھر اولیاء وصالحین سے ۔۔۔ یہی سلسلہ چلتے چلتے دور حاضر میں حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ تک پہنچا جو عبقری میگزین میں ہر ماہ سلسلہ وار کالم کے ذریعے جنات کے ساتھ بیتے سیچی زندگی کے سچے واقعات بیان کرتے ہیں
!مردہ خاتون کی قبر سے زندہ بچے کی پیدائش

محترم قارئین! ماہنامہ عبقری میں بیان کردہ جنات کے ماوراء العقل یا روحوں کے حیرت انگیز واقعات کے متعلق کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں ۔ دین تو قرآن وحدیث کا نام ہے قصے کہانیوں میں کیا رکھا ہوا ہے؟ حالانکہ جب ہم قرآنی اسلوب پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک جل شانہ نے بھی جہاں ضروری سمجھا وہاں پہلی امتوں کے قصے بیان فرما کر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت و رہنمائی فرمائی۔ کیونکہ انسان ہمیشہ اپنے سے پہلے لوگوں کے واقعات سن کر عبرت حاصل کرتا اور اپنی دنیا آخرت کو بہتر بنانے کا سبق سیکھتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی محفل میں کس طرح کے حیرت انگیز واقعات بیان کیے جاتے تھے۔ مولانا محمد ہارون معاویہ صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوا۔ دونوں میں اس قدر مشابہت تھی کہ امیر المومنین رضی اللہ عنہ حیران ہو گئے ۔ اس شخص نے کہا: اے امیر المومنین ! میرے اس بیٹے کی پیدائش کا قصہ بہت عجیب ہے۔ جب میری بیوی حاملہ ہوئی تو مجھے ایک جہادی معرکہ میں جانا پڑ گیا۔ بیوی کہنے لگی : آپ مجھے اس حالت میں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ میں نے کہا: استودع الله ما في بطنك (تیرے پیٹ میں جو کچھ ہے میں اسے اللہ تعالیٰ کی سپر د کرتا ہوں ) یہ کہہ کر میں جہادی مہم پر چلا گیا۔ کافی عرصے بعد جب واپس آیا تو یہ درد ناک خبر ملی کہ میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ جنت البقیع میں دفن ہے لیکن ساتھ ہی ایک حیرت انگیز بات بھی معلوم ہوئی کہ روزانہ رات کو اس کی قبر سے آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں۔ میری بیوی پاک باز اور نیک عورت تھی۔ چنانچہ میں اس کی قبر پر گیا اور آنسو بہاتے ہوئے دعا کی۔۔۔ دیکھا تو وہاں قبر کھلی ہوئی تھی اور یہ بچہ بھی موجود تھا جو اس وقت بھوک کی وجہ سے بلبلا رہا تھا۔ میں اسے لینے کیلئے آگے بڑھا تو یہ آواز سنائی دی : اے اپنی امانت کو اللہ تعالیٰ کی سپرد کرنے والے ! اپنی امانت لے جاؤ۔ اگر تم اس کی ماں کو بھی اللہ کی سپر د کر جاتے تو آج وہ بھی تمہیں زندہ سلامت ملتی۔ لہذا میں نے اس بچے کو قبر سے اٹھایا تو قبر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔ اے امیر المومنین ! یہ وہی بچہ ہے (کتاب الدعاء للطبرانی جلد 2 صفحہ 1183 بحوالہ کتاب : کتابوں کی لائبریری میں، صفحہ 130 ناشر : مکتبہ بیت السلام انار کلی بازارلاہور )
جنات چمٹ جانے کا احادیث میں ثبوت

موجودہ دور میں اتنی سائنسی ترقی ہونے کے باوجود بھی انسانوں کو مختلف بیماریوں کے نام پر جنات کس طرح پریشان کر رہے ہیں؟ یہ واقعات جب عبقری میگزین میں شائع کیے گئے تو کچھ لوگوں نے انہیں نفسیاتی الجھن یا وہم کا نام دے کر پس پشت ڈال دیا اور اُلٹا عبقری کے متعلق کہا کہ یہ میگزین دیو مالائی قصے کہانیوں سے بھرا ہوتا ہے۔ قارئین ! آئیں دیکھتےہیں کہ ان حیرت انگیز واقعات کا احادیث مبارکہ میں کیا ثبوت ہے؟حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ہر کام کے وقت حتی کہ کھانے کے وقت بھی شیطان تم میں سے ہر ایک کے ساتھ رہتا ہے۔ لہذا کھانا کھاتے وقت جب کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اسے چاہیے کہ اس کو صاف کر کے کھالے اور اسے شیطان کے لیے مت چھوڑے (صحیح مسلم )بقیۃ السلف حضرت مولانا محمد یونس پالنپوری مدظلہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : شیاطین اور فرشتے اللہ کی وہ مخلوق ہیں جو یقیناً ہر وقت ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم ان کو نہیں دیکھ سکتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں جو کچھ بتایا ہے، اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم سے بتایا ہے اور بالکل حق بتایا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کبھار ان کا اس طرح مشاہدہ بھی ہوتا تھا جس طرح ہم مادی چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ اس لیے ایسی حدیثوں کو جن میں شیطانوں ( یعنی جنات ) کا ذکر ہے ، تو ان حدیثوں کو مجاز پر محمول کرنے کی بالکل ضرورت نہیں بلکہ یہ ایک سچی حقیقت ہے (بحوالہ کتاب: بکھرے موتی ص479، ناشر بلسم پبلی کیشنز، اردو بازارلا ہور )پیٹ سے جن کا نکلنا: مسند دارمی کی حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بیٹے کو لے کر آئی اور عرض کرنے لگی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بیٹے کو جنون عارض ہوجاتا ہے اور یہ ہم کو بہت تنگ کرتا ہے ۔ آپ صلی یا کہ تم نے اس کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی۔ اسی وقت اس لڑکے نے قے کی تو اس کے پیٹ سے سیاہ کتے کے پلے کی طرح کوئی چیز نکلی (مسند دارمی ، ج 1 ص 24 بحوالہ کتاب: قوم جنات اور امیراہلسنت، ناشر: مکتبہ المدینہ کراچی)
خواتین کے مخصوص امراض کی اصل وجہ

علامہ شیخ ابو المنذر خلیل بن ابراہیم مدظلہ لکھتے ہیں کہ : پاگل پن ، ڈپریشن، اینگزائٹی ، ٹینشن اور مرگی جیسے تمام امراض کو قرآن پاک نے ” وسواس الخناس” کا نام دیا ہے۔ جب ہم ” وسواس الخناس ” کا میڈیکل سائنس میں ترجمہ کریں تو اسے(whispers of shaytan)یعنی شیطان کی طرف سے کی جانے والی ذہن سازی کہا جائے گا۔ خواتین میں جنات کی وجہ سے بانجھ پن، ماہانہ بے قاعدگی اور انفیکشن جیسے امراض سامنے آتے ہیں۔ خاص طور پہ بانجھ پن ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کی بظاہر کوئی طبی وجہ سامنے نہیں آتی۔ اکثر اوقات میاں بیوی دونوں بالکل تندرست ہوتے ہیں، اس کے باوجود اولاد سے محروم رہتے ہیں۔ میرا ایک دوست جو مسلسل 4 سال تک ماہر ڈاکٹر کے زیر علاج رہا، اس کو ڈاکٹر نے کہا: میں آپ کے کیس میں حیران ہوں کہ آپ دونوں میاں بیوی 100 فیصد تندرست ہیں، اس کے باوجود آپ کے ہاں اولاد نہیں ہو رہی۔ دراصل اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عورت کے رحم میں شریر جنات قیام کر لیتے ہیں اور مردانہ سپرم کو یا عورت کے EGGS کو ضائع کر دیتے ہیں (بحوالہکتاب:The Jinn and Human Sicknessصفحه 53 ناشر: مکتبہ دارالسلام، نیو یارک) محترم قارئین ! اب معلوم ہوا کہ ماہنامہ عبقری میں جنات کے پیدائشی دوست کا سلسلہ وار کالم ایسے ہی بلاوجہ نہیں دیا گیا بلکہ ان مختصر سے دو صفحات کو پڑھنے کی بدولت بے شمار حضرات سمجھ میں نہ آنے والی بیماریوں سے شفاء پاچکے ہیں اولاد کی خوشیاں حاصل کر چکے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے تسبیح اور مصلے کے ساتھ رشتہ جوڑ چکے ہیں۔ یعنی کچھ کم علم لوگ جس بات کو قصے کہانیاں“ کہہ کر کے رد کر دیتے ہیں وہی چیز مخلوق خدا کے مسائل کو حل کرنے میں ایسا لاثانی کردار ادا کر رہی ہے جس کی مثال صدیوں میں بھی نہیں ملتی۔
ایک غیبی آواز نے گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا

امام ابن قیم علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: شیخ ہاشم بن قاسم رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میرے گھر میں ایک پتھر پھینکا گیا اور آواز آئی: اے ابونضر ! ہماری جگہ سے دور چلے جاؤ ۔ یہ سن کر میں بہت پریشان ہوا کہ یہ گھر چھوڑ کر میں کہاں جاؤں گا؟ چنانچہ میں نے کوفہ میں شیخ ابو ادریس المحار بی رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھ کر اپنے مسئلے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے جواب میں فرمایا: مدینہ منورہ کے قریب ایک ایسا کنواں تھا جو خشک ہو جایا کرتا تھا، کچھ مسافروں نے اس کے قریب خیمے لگائے تو وہاں کے رہائشیوں نے اس کنویں کی شکایت کی تو مسافروں نے کہا: ہمیں ایک بالٹی پانی لادو۔ پھر اس پانی پر انہوں نے چند کلمات پڑھ کر دم کیا اور اس کنویں میں پانی ڈال دیا۔ یکدم کنویں سے آگ نکلی ، جو کنارے پر پہنچ کر بجھ گئی۔ اس کے بعد سے کنواں ٹھیک ہو گیا۔ پس تم بھی انہی کلمات کا دم کر کے گھر میں پانی چھڑ کو ۔ چنانچہ جب میں نے ایسا کیا تو مجھے آواز آئی: اے ابو نضر ! تم نے تو ہمیں جلا دیا، لو ہم ابھی جاتےہیں ( بحوالہ کتاب: الوابل الصيب، صفحہ 223 ناشر: مکتبہ سلفیہ، شیش محل روڈ لاہور ) محترم قارئین! یہ کتاب آج سے کم و بیش چار صدیاں پہلے لکھی گئی تھی۔ اس وقت عبقری میگزین کا وجود نہیں تھا، لیکن امام ابن قیم علیہ الرحمہ جیسے محدث، مفسر اور علامہ بھی اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ گھر یلو الجھنوں اور کاروباری پریشانیوں میں جنات بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں، اسی لیے انہوں نے ایسے ماوراء العقل واقعات تحریر فرما کر اپنے معاشرے کو جناتی حملوں سے آگاہ کیا۔ آج کے دور میں ماہنامہ عبقری بھی اکابرین امت کی طرح یہی خدمت سر انجام دے رہا ہے تا کہ چودہ صدیاں پرانا دین ہر دور میں اپنی اصلی حالت میں قائم رہتے ہوئے مخلوق خدا کی ہر موڑ پر رہنمائی کا سامان فراہم کرتا رہے۔
برکت والی تھیلی کا حدیث میں ثبوت

محترم قارئین! پہلے دور کے تمام اولیاء صالحین پیسے رکھنے کیلئے تھیلی استعمال فرمایا کرتے تھے اللہ پاک جل شانہ نے یہ سعادت بھی حضرت شیخ الوظائف دامت برکاتہم العالیہ کو عطا فرمائی، جن کی پر خلوص محنت سے عبقری تسبیح خانے کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو اولیاء صالحین کی طرح تھیلی استعمال کرنے کی عادت پڑ گئی۔ اس کے بے شمار فوائد میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ 129 مرتبہ سورۃ کوثر کے دم والی تھیلی سے پیسے بھی چوری نہیں ہوتے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ برکت والی تھیلی صحابہ کرام کے دور میں کس طرح استعمال کی جاتی تھی؟ مولا نا ہارون معاویہ صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنی فاقہ کشی دور کرنے کی ایک عجیب ترکیب سوجھی۔ انہوں نے کچھ کھجوریں لیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں جاکر عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں برکت کی دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو اکٹھا کیا اور ان میں برکت کی دعا کر کے فرمایا: انہیں اپنے تو شہ دان میں رکھ لو اور جب کبھی ضرورت ہو، اندر ہاتھ ڈال کر نکال لیا کرو، اس توشہ دان کو نہ کبھی الٹنا، نہ ہی جھاڑنا۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کھجوروں کو ایک تھیلی میں رکھ لیا۔ جب ضرورت ہوتی، ان میں سے خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ۔ اس طرح انہوں نے بیسیوں من کھجوریں اندر سے نکال نکال کر فاقہ کش مسکینوں میں تقسیم فرمائیں۔ آپ اس تھیلی کو قیمتی سرمایہ سمجھتے ہوئے نہایت احتیاط سے اپنے پاس رکھتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے 26 سال بعد جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ، اس دن وہ تھیلی بھی گم ہو گئی۔ لہذا اس دن کے بعد ان کی برکت والی کھجوریں نکلنا بھی ختم ہو گئیں۔ سیرت کبری جلد 2 صفحہ 831 بحوالہ سنن ترمذی، بحوالہ کتاب: کتابوں کی لائبریری میں صفحہ 118 ناشر : مکتبہ بیت العلوم ، نابھہ روڈ، انار کلی بازار لاہور
جادوئی پتلے نے بول کر سب راز اُگل دیے

محترم قارئین! روحانی عملیات میں دسترس حاصل کرنا، لوگوں کو وظائف اور تعویذات کے ذریعے مسائل مشکلات سے نکلنے کی ترغیب دینا اور اعمال سے پلنے ، اعمال سے بننے اور اعمال سے بچنے کے پیغام کو عام کرنا ہر دور کے اکابرین امت کے ہاں رواج پذیر تھا۔ اہل علم حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بر صغیر کی عظیم درسگاہ دارالعلوم میں جہاں قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر ، صرف ونحو علم کلام، علم منطق وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی، و ہیں با قاعدہ طور پر علم طب اور علم روحانیت کا بھی مکمل انتظام تھا، تا کہ وہاں سے فراغت پانے والا ہر عالم دین معاشرے پر بوجھ بنے کی بجائے مخلوق خدا کیلئے خیر و برکت کا ذریعہ بن جائے ۔ آج مدارس میں تعلیم کتاب و سنت تو عام ہے، مناظرے کا فن بھی سکھایا جاتا ہے لیکن روحانیت اور طب و حکمت کا سبق نا پید ہو چکا ہے۔ اکابر و اسلاف کی اسی ترتیب کو باقی رکھنے کیلئے ماہنامہ عبقری اپنی بساط کے مطابق طب اور روحانیت کو پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے اکابر کو روحانی علوم میں کیسا کمال حاصل تھا؟ آئیے دیکھتے ہیں۔ مولانا محمد انوربن اختر مدظلہ لکھتے ہیں کہ: شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے ایک شاگرد مولانا فراغت علی صاحب سے خاص تعلق تھا۔ وہ انہیں ” میرے چاند” کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک رات فضا میں ایک روشن دان جار با تھا۔ حضرت نے فرمایا: میرے چاند ! اگر تم چاہو تو میں اس روشن دان کو نیچے اتار دوں ؟ مولانا فراغت علی صاحب نے دلچسپی ظاہر کی تو حضرت نے روشن دان کو حکم دیا ، وہ نیچے اتر آیا۔ اس میں ایک پتلا تھا ، جس میں سوئیاں چبھی ہوئی تھیں۔ حضرت رائے پوری رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا: تم کون؟ پہلے میں سے آواز آئی کہ میں جادو ہوں۔ حضرت نے فرمایا: میری بات مانو گے یا اپنے جادو گر کی؟ کہنے لگا: حضرت میں تو آپ کی بات مانوں گا۔ فرمایا: میرے رائے ہے کہ جہاں سے آئے ہو، وہیں واپس لوٹ جاؤ۔ چنانچہ وہ لوٹ گیا اور بعد میں سنا گیا کہ وہ جادو گر مر گیا ہے۔ حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے : اس بد بخت نے اس طرح نہ جانے کتنے لوگوں کو ہلاک کیا ہو گا! حوالہ کتاب: اکابر کے ایمان افروز واقعات صفحہ 138 ناشر: شعبه تحقیق و تصنیف، ادار و اشاعت اسلام، کراچی)
حضور سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قاصد جنات

محترم قارئین ! جیسا کہ پہلے بھی ایسی کئی احادیث اور روایات پیش کی جاچکی ہیں، جن میں حضور سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت کا اعلان انسانوں کے علاوہ جنات نے بھی کیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات صرف کالے جادو گروں کے تابع نہیں ہوتے، بلکہ نیک جنات نیک بزرگوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ انہیں نظر آتے ہیں اور ان سے ملاقات بھی کرتے ہیں۔ آج کے دور میں اس کی زندہ مثال حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہیں، مولانا محمد اویس بن سرور لکھتے ہیں : ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے کہ ان کے سامنے سے ایک آدمی گزرا کسی نے پوچھا: امیر المومنین ! کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ شخص حضرت سواد بن قارب ہیں۔ جنہیں ان کے جن ” نے حضور کا ایم کی بعثت کی خبر دی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے پاس بلا کر پورا واقعہ سنانے کی فرمائش کی: حضرت سواد بن قارب نے فرمایا: ایک رات میں لیٹا ہوا تھا تو میرا جن میرے پاس آکر کہنے لگا : اگر تیر سے اندر عقل ہے تو غور سے سن لے کہ قریش میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں، جو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔ جنات حق کی تلاش میں سفید اونٹوں پر کجاوے باندھ کر مکہ کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ لہذا تم بھی سفر کر کے اسی برگزیدہ ہستی کے پاس جاؤ ، کیونکہ ہدایت حاصل کرنے میں پہل کرنے والا بعد میں آنے والے سے افضل ہوگا۔ یہ باتیں سن کر میں نے اپنے جن سے کہا: مجھے بہت نیند آرہی ہے ، مجھے سونے دو لیکن وہ دوسری اور تیسری رات بھی ایسے ہی میرے پاس آیا اور انہی الفاظ میں مجھے دعوت دی۔ بالآخر میں نے سوچا کہ جن کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ میں اونٹنی پر سوار ہو کر چل پڑا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آقا سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کی: اے روئے زمین پر چلنے والوں میں سب سے اچھے انسان ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی ہر بات کے متعلق قابل اعتماد ہستی ہیں۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان تمام اعمال کا حکم فرمائیں ، جو آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آرہے ہیں۔ ہم ان اعمال کی پابندی کریں گے، اگر چہ اس پر محنت کرتے ہوئے ہمارے بال سفید ہو جائیں۔ براہ کرم آپ اس دن کیلئے میرے سفارشی بن جائیں، جس دن کسی اور کی سفارش میرے کام نہیں آسکے گی۔ میری یہ باتیں سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ مسکرا دیے اور ان کے چہرے سے خوشی واضح ہونے لگی ( بحوالہ کتاب: عشرہ مبشرہ کے دلچسپ واقعات صفحه 94 ناشر: مکتبہ بیت العلوم، انار کلی لاہور )