تسبیح خانہ کا پیغام اعمال سے بچنے کا یقین بالکل صحیح احادیث مبارکہ کی روشنی میں

تحریر : مولانا ابوعون محمد غزالی، فاضل جامعہ امدادیہ فیصل آباد دکھ، دردوں، پریشانیوں اور تکلیفوں سے نکلنے کیلئے فوائد اور فضائل کے ذریعے اعمال کی طرف مائل کرنے کے حوالے سے تسبیح خانہ اور عبقری پوری دنیا میں مشہور ہے یہ ترتیب تسبیح خانہ کی کوئی خود ساختہ ترتیب نہیں بلکہ قرآن سنت سے ماخوذ ہمارے اسلاف واکابر کا طریقہ کا ر ہے چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں جس سے آپ کو تسبیح خانہ کے پیغام کی صداقت بآسانی سمجھ میں آجائے گی۔ اعمال سے بچنے کی پہلی دلیل : حضرت عثمان ابی العاص فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضور صلی,اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں شکایت کی کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے میرے جسم میں دردیں رہتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاں درد ہو وہاں ہاتھ رکھ کر تین بار بسم شریف اور سات مرتبہ یہ پڑھا کرو۔ أَعُوذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِن شَرِ مَا أَجِدُ وَ أُحَاذِرُ(صحیح مسلم، ابواب الطب، حدیث نمبر : 5867)اعمال سے بچنے کی دوسری دلیل : ام المؤمنین اماں سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر ایک بچی کو دیکھا جس کے چہرے پر دھبے پڑے ہوئے تھے تو فرمایا اسے کسی سے دم کرواؤ سے نظر لگی ہے۔ (بحوالہ صحیح بخاری)اعمال سے بچنے کی تیسری دلیل : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعے حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دم فرمایا کرتے تھے۔ أُعِيذ كُم بِكَلِمَاتِ الله القامة مِن كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَّامَّةٍ (صحیح بخارى )محترم قارئین:عبقری کا پیغام اعمال سے پہنچنے کا یقین سو فیصد توحیدی عقیدہ ہے ہے جس سے جڑنے والا ہر شخص اللہ کے فضل و کرم سے کامیاب ہے اللہ کریم میں اکابر پر مکمل اعتماد عطا فرمائے۔ آمین
تسبیح خانہ میں ماہانہ کیا جانے والا دم تعلیمات اکابر کی روشنی میں

ہر مہینے کی آخری اتوار کو تسبیح خانہ لاہور میں اسم اعظم کا دم کیا جاتا ہے جس میں ملک بھر سے ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں بیماروں کو شفاء، دکھی لوگوں کو سکھ ، پریشان حال لوگوں کو اللہ کے فضل و کرم سے عافیت ، برکت اور صحت ملتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دم کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل سنت مبارکہ، تمام صحابہ کرام اور اولیائے کرام کا روز مرہ کا معمول تھا چند مثالیں پیش خدمت ہیں: (1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو اور صحابہ کرام کو دم فرمایا کرتے تھے ( بحوالہ بخاری شریف، ناشر قدیمی کتب خانہ ) (2) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی برا خواب دیکھے تو اسے چاہیے کہ اٹھنے کے بعد تین مرتبہ پھونک مار دیا کرے ( بحوالہ صحیح بخاری ) ۔ (3) اماں عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر معوذات پڑھ کر دم کیا کرتی تھی۔ بخاری شریف ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر دم فرماتے تو اس پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے چند کلمات ادا فرماتے (بحوالہ صحیح بخاری )۔(4) حضرت ابوسعید خدری نے سفر کے دوران ایک بیمار تشخص کو بکریوں کے ریوڑ کے عوض دم کیا تو اللہ کے کرم سے اسے شفاء مل گئی (صحیح بخاری) (5) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو جبریل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کلمات پڑھ کر دم کیا کرتے تھے (صحیح مسلم ) وضاحت: حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی صاحب، حضرت مولانا شاہ محمد حفظ الرحمن صاحب حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب، حضرت مولانا یعقوب نانوتوی صاحب اور ان جیسے ہزاروں علمائے کرام دم کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہیں ۔ ( تحریر مولانا خلیل الرحمن فاضل جامعہ امدادیہ فیصل آباد محترم قارئین! آپ حضرات ان چند مثالوں سے بخوبی سمجھ گئے ہونگے کہ تسبیح خانہ لاہور میں ہونے والا ماہانہ دم توکل کے عین مطابق ہی ہے کیونکہ اس میں ہر بیماری دُکھ تکلیف میں اللہ کے کلام ہی کی طرف نظر جاتی ہے۔ اللہ میں اسلاف پر اعتماد عطا فرمائے ۔ آمین
نقشبندی درویش کے سامنے شاہ جنات کی عاجزی

سرتاج الاولیاء قطب الاقطاب حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب بہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین اور میرے والد گرامی حضرت خواجہ عزیز احمد بہلوی نقشبندی مدظلہ العالی بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت بہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ڈیرہ غازی خان سے ایک مریض لایا گیا، جس پر جن قابض تھا۔ حضرت شیخ بہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حکم فرمایا کہ اسکو چھوڑ دو لیکن جن نے حکم کرتے ہوئے صاف انکار کر دیا۔ حضرت شیخ بہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مریض کے ساتھ آنے والے شخص کو ایک رقعہ دے کر فرمایا: فورآجاؤ اور کوہ سلیمان (جوڈی جی خان کے قریب واقع ہے) پہاڑی کے دامن میں جا کر آواز لگانا: "محمد محمد ( یہ دراصل ایک جن کا نام تھا) جب وہ تمہارے سامنے آجائے تو یہ خط اس کو دے دینا۔ پھر جب تک جواب نہ ملے اسی جگہ انتظار کرتے رہنا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس شخص نے جا کر آواز لگائی تو محمد نامی جن آگیا ۔ جب حضرت شیخ بہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا خط اس کے سامنے پیش کیا تو جن ( محمد ) نے کہا: سردار نے آپ کو بھی ساتھ ہی بلایا ہے۔ لہذاوہ خط لے کر جب شاہ جنات کے پاس پہنچا تو وہ سردار کھڑے ہو گئے۔ خط میں لکھا تھا: کیا آپ اپنے جنات کو ادب نہیں سکھلاتے ؟ یہ پڑھتے ہی سردار کو غصہ آگیا۔ جس جن نے اس شخص کے مریض پر قبضہ کیا ہوا تھا، شاہ جنات نے اسی وقت اس جن کو بلا کر اس کا سر قلم کر دیا۔ پھر بڑے ادب سے کہا : حضرت شیخ بہلوی سے عرض کرنا: اپنے جن کی گستاخی پر میں نہایت شرمندہ ہوں اور اس کی طرف سے میں خود حاضر ہوں۔ میری سزا آپ تجویز فرمادیں۔ یہ تھا جنات کی نظر میں ایک صاحب کمال درویش کا مقام! تحریر مفتی حسین احمد مدنی بہلوی مدظلہ خانقاہ پہلو یہ نقشبندیہ شجاع آباد مؤرخہ 14 ستمبر 2019)
انسان کے بداخلاق ہونے میں جنات کا کردار

مولانا شبیر حسن چشتی نظامی رحمۃ اللہ علیہ فاضل دارالعلوم ) لکھتے ہیں کہ تفسیر فتح العزیز میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جنات کے 4 فرقے بیان فرمائے ہیں۔ پہلا فرقہ کافر جنات کا ہے جو اپنے کفر کو پوشیدہ نہیں رکھتے بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکئے، کھلم کھل طور پر انسانوں کو بہکانے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ ہم سے غیب کی خبریں پوچھا کر و مصیبت کے وقت ہم سے مدد مانگا کرو ہم تمہاری حاجت روائی اور مشکل کشائی کیا کریں گے ۔ ایسے جنات لوگوں سے کفر و شرک کرواتے ہیں اور انہیں اسلام قبول کرنے سے روکے رکھتے ہیں۔دوسرا فرقہ منافق جنات کا ہے جو خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے اپنے پوشیدہ مکر و فریب سے انسانوں کا نقصان کرنے کے درپے رہتے ہیں۔تیسرا افرقہ فاسق جنات کا ہے جو انسانوں کو ہر طرح سے مناتے ہیں ۔ اپنے لیے نذرونیاز مٹھائی شربت وغیرہ سب کچھ قبول کر لیتے ہیں۔چوتھا فرقہ ان جنات کا ہے جو چوروں کی طرح بعض لوگوں کی روح کو بد اخلاقی ، تکبر کینے اور حسد وغیرہ کی آلودگی کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں ( بحوالہ کتاب: جنات کے پر اسرار حالات، صفحہ 157 ناشر : آستانہ بکڈ پودہلی)محترم قارئین ! حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ آج کل عبقری میگزین میں حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ اپنے کالم جنات کا پیدائشی دوست میں جو انسانوں کو مختلف طریقوں سے جنات کے ستانے کے واقعات بیان فرماتے ہیں، یہ حقائق کوئی اس صدی کی پیداوار نہیں، بلکہ گزشتہ تمام اولیائے کرام نے مخلوق خدا کی خیر خواہی چاہتے ہوئے اسی طرح سے خبر دار کیا اور جنات کی شرارتوں سے بچنے کیلئے بے شمار وظائف عطا فرمائے۔ کیونکہ مخلوق خدا کو ایمان اعمال والی راہوں پر لانے کا کام ہر دور میں جاری رہا ہے۔ کام کبھی نہیں رکتا، بس چہرے بدل جاتے ہیں۔ پس آج کے دور میں اس عظیم منصب پر فائز حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے اور ان کیلئے جتنی بھی دعائیں کی جائیں، حق بنتا ہے۔
انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے کیلئے جنات کی مختلف ڈیوٹیاں

حضرت علامہ کمال الدین دمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ شیطان نے اپنی اولا د کو بعض مخصوص کاموں پر مامور کیا ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کے مطابق ان جنات کے نام اور کام یہ ہیں۔لاقیسں ، ولہان : یہ دونوں جنات وضو اور نماز پر مامور ہیں اور لوگوں کے دلوں میں جلدی کرنے کے وسوسے ڈالتے ہیں۔ھفاف: یہ جن صحرا پر مامور ہے اور صحراؤں میں شیطانیت پھیلا کر لوگوں کو گناہوں پر اکساتا ہے۔زلنبور: یہ جن بازاروں پر مامور ہے اور لوگوں کو جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹی تعریف کرنے پر اکساتا ہے۔بژ : یہ جن مصیبت زدہ لوگوں کو ماتم کرنے نوحہ کرنے گریبان چاک کرنے اور چہرہ نوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ابیض: یہ جن انبیاء علیہم السلام کے دلوں میں وسوسے ڈالنے پر مامور ہے۔اعور: یہ جن زنا کروانے پر مامور ہے اور زنا کے وقت مرد و عورت کی شرمگاہ پر سواررہتا ہے۔واسم : اس جن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا بھول جائے تو یہ گھر والوں میں فساد کروانے کا سبب بنتا ہے۔مطوس یہ جن غلط قسم کی بے بنیاد افواہیں پھیلانے پر مامور ہے۔ (بحوالہ کتاب: جنات کے پر اسرار حالات صفحہ 75 ناشر: آستانہ بک ڈپو دہلی)
جنات اور انسانوں کی شادی ہونے کا ثبوت

محترم قارئین ! عبقری میگزین میں انسانوں اور جنات کی شادی کے متعلق جب مضمون شائع ہوا تو کچھ لوگوں نے لاعلمی کی بنیاد پر سوال اٹھایا کہ یہ کیسے قصے کہانیاں ہیں؟ جن کا شریعت سے کوئی ثبوت ہی نہیں ملتا ۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکابر” کا اس معاملے میں کیا فرمان ہے؟مولانا شبیر حسن چشتی نظانی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی شخص نے سوال پوچھا: کیا جن عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے ؟ فرمایا: ہاں جائز ہے بشرطیکہ دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کیا جائے ۔ اسی طرح فتاوی سراجیہ میں بھی جنات اور انسانوں کے نکاح کو جائز فرمایا گیا ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعثت نبوی صلی اللہ وسلم سے پہلے دیگر انبیاء کے زمانے میں جنات اور انسانوں کی شادی ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حضرت سلیمان علیہ السلام کی زوجہ ملکہ بلقیس کے ماں باپ میں سے ایک جن تھا۔ علامہ کمال الدین دمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مجھ سے ایک صالح شخص نے بیان کیا کہ میں نے 4 جن عورتوں سے نکاح کیا ہوا ہے۔ مجھے اس کی بات کا یقین نہ آیا اور میں نے کہا : یہ کس طرح ممکن ہے کہ لطیف اور کثیف جسم یکجا ہو سکیں ؟ لیکن کچھ عرصے بعد وہی شخص دوبارہ نظر آیا تو اس کے سر پہ پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میرا اپنی ایک جن بیوی سے جھگڑا ہو گیا تھا اس نے میرا سر پھاڑ دیا ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کے ایک طالب علم کا نکاح جن عورت سے ہو گیا۔ پھر جب اس عورت نے اپنے انسان خاوند کے پاس ضرورت سے زیادہ ہی آنا شروع کر دیا تو اس نے تنگ آکر حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے شکایت کی۔انہوں نے اسے ایک تعویذ عطا فرمایا، جس کے بعد اس جن عورت کی آمد ورفت بند ہوگئی ( بحوالہ کتاب: جنات کے پر اسرار حالات، صفحہ 152 ناشر : آستانہ بک ڈپو دہلی )
بہترین پوسٹ اور اعلیٰ منصب چاہئے تو یہ آیت پڑھیں

مولا نا مفتی محمد قاسم صاحب لکھتے ہیں کہ امام الموحدین، رئیس المفسرین والمحدثین عارف باللہ حضرت مولانا حسین علی واں بھچراں رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین غورغشتوی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی طالب علم نے لاحول ولاقوۃ الا بالله العلى العظیم پڑھنے کی اجازت مانگی تو ارشاد فرمایا: بالکل اجازت ہے اسے روزانہ دو سومرتبہ پڑھا کرو۔ پھر فرمایا کہ حضرت ابو ہریرہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وظیفہ کثرت سے پڑھنے کا حکم دیا تھا کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ اسی طرح ایک مجلس میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے صحیح بخاری کی بعض شروح میں پڑھا ہے کہ اگر کوئی شخص سورۃ الملک کو نیا چاند دیکھتے وقت پڑھ لے تو وہ پورا مہینہ تمام بلاؤں اور مصیبتوں سے محفوظ رہے گا کیونکہ عارفین کاملین نے فرمایا ہے کہ سورۃ یاسین کے اسرار اس کے آخر میں ہیں اور سورۃ الملک کے اسرار اس کے شروع میں ہیں ۔ بعض خواص اہل دل نے سورۃ الملک کی اس آیت اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ کے فوائد میں لکھا ہے کہ اس کا وظیفہ پڑھنے سے بلائیں دور ہوتی ہیں، مشکلات اور تکالیف ختم ہوتی ہیں، مریض کو شفاء ملتی ہے اور حتیٰ کہ اس کو پڑھنے سے بڑے بڑے منصب ملتے ہیں۔اس آیت کو عشاء کی نماز کے بعد دوسو مرتبہ پڑھنا چاہئے (بحوالہ کتاب: مجالس غورغشتوی صفحہ 90 ناشر: مدرسہ فاروقیہ لالہ زار کالونی، پشاور)محترم قارئین! درج بالا مضمون میں غور کریں کہ اتنے بڑے شیخ الحدیث پر جب قرآنی سورتوں اور وظائف کے فوائد کھلے تو ان پر کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ آپ پر اس وظیفے اور اس کی مخصوص تعداد کی وحی نازل ہوتی ہے؟ بلکہ شریعت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے علماء و مشائخ پر اعتماد کرتے ہوئے قرآن وحدیث اور ماثورہ دعاؤں پرمشتملوظائف کے ذریعے مسائل اور مشکلات حل کروانی چاہئیں۔
ماہنامہ عبقری پر اعتراض کرنے والے ضرور پڑھیں ۔۔۔!

اللہ کریم کی توفیق سے ماہنامہ عبقری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ چند ایسے لوگ جن کا کام صرف اعتراض کرنا ہی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس وہ میں ضعیف روایات ذکر کی جاتی ہیں تو آئیے! ایسے لوگوں کو ہم خو د جواب نہیں دیتے بلکہ ماہنامہ بینات جواب دیتا ہے جو کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کا ترجمان ہے اور ان کے علمی مزاج میں رخصت سے عزیمت زیادہ ہے- جس گناہ کے بعد پشیمانی نہ ہو، اندیشہ ہے کہ اسلام سے خارج کر دے۔ (حضرت مجددالف ثانی پیہ) فضائل اعمال اور انکار ضعیف احادیث جناب عبد المنان معاویہ الہ آباد، لیاقت پور ضلع رحیم یارخان برادرانِ اسلام میں سے بعض دوست ریحانہ الہند ، محدث کبیر ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا سہارن پوری ثم مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ رحمۃ واسعہ کی مقبولِ عام کتاب فضائل اعمال کی مقبولیت عامہ سے خائف ہیں۔ علمی اعتبار سے اس معاملہ میں یتیم ہونے کی وجہ سے وہ کتاب فضائل مشتمل اعمال پر اعتراض کرتے ہیں کہ: فضائلِ اعمال نامی کتاب ضعیف و موضوع احادیث پر ہے۔ حالانکہ یہ اعتراض وہ اصولِ احادیث سے کم علمی کی بنا پر کرتے ہیں ۔ محدثین کے نزدیک ضعیف احادیث فضائل کے باب میں قابل قبول ہیں، ہاں ! عقائد کے باب میں قبول نہیں ہیں ، جیسا کہ امام اہل سنۃ والجماعة ، محقق عالم ڈاکٹر علامہ خالد محمود لکھتے ہیں کہ : ضعیف حدیث سے عقائد ثابت کرنا علم کے لیے ایک بہت بڑی آفت ہے، علم سے نا آشنا لوگ ضعیف روایات سے عقائد کا اثبات کرتے ہیں ۔“ آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۶) لیکن بُرا ہو تعصب کا کہ جس کی وجہ سے یہ اعتراض قائم کیا گیا اور عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فضائلِ اعمال میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔ سب ضعیف ہیں اور ضعیف احادیث قابل قبول نہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو ضعیف حدیث کی تعریف جان لیں ۔ مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب تحریر فرما ہیں : وہ حدیث ضعیف ہے جس کی سند موجود ہو ( یعنی موضوع اور من گھڑت نہ ہو ) لیکن اس کے راوی باعتبار یادداشت یا عدالت کے کمزور ہوں، لیکن اگر اُسے دوسری سندوں سے تائید حاصل ہو تو یہ قبول کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں کہ صرف فضائل اعمال میں انہیں لے لیا جائے گا، بلکہ ان سے بعض حالات میں استخراج مسائل بھی کیا جاسکتا ہے ۔ قیاس استنباط مسائل کے لیے ہی ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہ تضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دیتے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل” سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات احکام میں ہی جمادى الأولى ١٤٤١ ۴۳ جو زیادہ پیسہ والا ہے، وہ زیادہ محتاج ہے۔ (حضرت شیخ سعدی می ) آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۵)چل سکتی ہے ، فضائل میں نہیں ، سو اس بات سے چارہ نہیں کہ حدیث ضعیف کا بھی اپنا ایک وزن ہے ، یہ من گھڑت نہیں ہوتی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضعیف احادیث صرف فضائل ہی میں نہیں ، بلکہ بعض اوقات مسائل میں بھی قابل قبول ہوتی ہے، اس لیے جو لوگ احناف کی ضد میں اس کی مخالفت کر رہے ہیں، انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ احناف کی ضد میں کہیں محدثین امت کے مسلک و فیصلے سے ہی رُوگردانی تو نہیں کر رہے ہیں ۔ الشیخ محمود طحان لکھتے ہیں : يجوز عند أهل الحديث وغير هم رواية الأحاديث الضعيفة والتساهل في أسانيدها من غير بيان ضعيفها بخلاف الأحاديث الموضوعة فإنّه لا يجوز روايتها إلا مع بيان وضعها . (تیسیر مصطلح الحدیث ، اردو ، ص : ۱۱۰) اہل حدیث کے نزدیک ضعیف احادیث اور جن کی سندوں میں تساہل ہے ان کا ضعف بیان کیے بغیر روایت کرنا جائز ہے ، بخلاف موضوع احادیث کے کہ ان کو روایت کرنا ان کے موضوع ہونے کی وضاحت کے بغیر جائز نہیں۔“ نوٹ: اہلِ حدیث حضرات محدثین کرام کا لقب ہے، جیسا کہ غیر مقلد عالم حافظ زبیر علی زئی مرحوم نے بھی اپنی کتاب ” فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد ۲ صفحہ: ۲۹۴ پر تسلیم کیا ہے کہ : اهل حدیث حضرات محدثین کا لقب ہے۔“ ڈاکٹر علامہ خالد محمود ضعیف احادیث کو بیان کرنے کے بارے میں تحریر فرما ہیں کہ : علماء نے صرف پند و نصیحت، بیان قصص اور فضائل اعمال کے مواقع پر احادیث ضعیفہ کے بیان کرنے کو بلا اس کے ضعف بیان کیے جائز رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ کتب سیر میں آپ کو احادیث ضعیفہ بغیر تصریح کے بہت ملیں گی ، بخلاف احادیث موضوعہ کے کہ ان کا بیان کرنا حرام ہے ۔ آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۸) درج بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ضعیف احادیث کا بیان کرنا فضائل میں جائز ہے اور اسے محدثین کرام (اہلِ حدیث ) قبول فرماتے ہیں۔ یہیں سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ خود کو طریق محدثین کے راہی کہلوانے سے کوئی اہلِ حدیث ( جو محدثین کا لقب ہے ) نہیں بنتا، جب تک اُس میں وہ شرائط وصفات نہ پائی جائیں جو ایک محدث کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ آپ غور فرمائیے ! کہ حضرات محدثین کرام تو ضعیف احادیث کو قبول فرما ئیں اور دامن محدثین تھا منے کے مدعی انکاری ہوں ، فیا للعجب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا حافظ ابن حزم اندلسی (۷۵۷ھ) امام اعظم ابو حنیفہ علیہ سے متعلق لکھتے ہیں: ۴۴ جمادى الأولى ١٤٤١م تاریک دل وہ ہے جس میں اخلاق نہ ہوں ۔ ( حضرت خرقانی علی ) امام ابو حنیفہ کے تمام شاگرد اس پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہ کا طریقہ یہی تھا کہ آپ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دیتے تھے ۔” (ابطال الرائے والقیاس والاستحسان ، ص: ۶۸ ، آثار الحدیث ، ج:۲، ص: ۱۴۵) حافظ ابن قیم حنبلی (۷۵۱ ھ ) لکھتے ہیں : امام ابو حنیفہ کے سب شاگرد اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ آپ کے ہاں حدیث ضعیف قیاس اور رائے پر مقدم تھی اور آپ نے اسی پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے
دس محرم کو ملنے والی مغفرت کا پروانہ

محترم قارئین ! ہمارے تمام اکابر و اسلاف کی ترتیب زندگی میں شامل اعمال و وظائف کوئی موجودہ دور کی نئی ایجاد نہیں، بلکہ ان تمام علماء و مشائخ نے یہ وظائف قرآن وسنت پر سو فیصد عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ہی پڑھے تھے۔ جیسا کہ محدث کبیر امام شوکانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر اللہ پاک جل شانہ اپنے کسی نیک بندے کو اس بات کا الہام کرے کہ فلاں قرآنی سورت یا فلاں آیت یا فلاں وظیفے کی یہ تاثیر اور برکت ہے تو واقعی ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی دلیل میں ہمیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد سنن ابن ماجہ سنن نسائی اور سنن ترمذی جیسی معتبر کتب احادیث سے ایک صحیح حدیث ملتی ہے جس کے راوی حضرت ابوسعید خدری ” ہیں ( بحوالہ کتاب الداء والدواء صفحہ 33 ناشر : مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور ) کچھ عرصہ پہلے عبقری میگزین میں دس محرم الحرام کے دن مغفرت پانے کا ایک چھوٹا ساعمل شائع ہوا تھا، آیئے دیکھتے ہیں کہ اس عمل کے پیچھے کن بزرگوں کی دلیل موجود ہے؟ حضرت خواجہ شیخ غوث محمد گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ کتاب ”جواہر خمسہ میں حضرت مولانا مرزا محمد نقشبندی دہلوی ایشیا یہ فرماتے ہیں کہ جو شخص عاشورہ کے دن 70 مرتبہ یہ کلمات پڑھے گا، حق تعالیٰ شانہ اس کی مغفرت فرما دے گا: حسبى اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُبحوالہ کتاب: جواہر خمسہ صفحہ 71 ناشر: مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہورحضرت ابوانیس صوفی محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دس محرم کے دن کسی بھی وقت باوضو ہو کر درج بالا د عا 70 مرتبہ پڑھنا بخشش کیلئے بہت افضل عمل ہے ( بحوالہ کتاب : گلہائے چہل رنگ، صفحہ 408 ناشر : الامین پرنٹرز سرور مارکیٹ اردو بازار لاہور )
دس محرم کو کیے جانے والے وظائف کا ثبوت

محترم قارئین ! ماہنامہ عبقری میں ماہ محرم الحرام میں کی جانے والی عبادات یا وظائف کے متعلق جو آرٹیکل شائع ہوتے ہیں، ہمارے اکابر و اسلاف سے وہ تمام وظائف ثابت ہیں ۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ قرب قیامت کے اس فتنوں بھرے دور میں ہمارے نزدیک قرآن وسنت اور اکابرین امت سے جڑے تمام اعمال مشکوک ہوتے جارہے ہیں جو کہ ایک افسوس ناک امر ہے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ روز بروز جس قدر مشکلات بڑھتی جارہی ہیں ہم دعائیں، تسبیحات اعمال اور وظائف بھی بڑھا دیتے کیونکہ اس اُمت کے تمام سلف صالحین ہر وقت قبولیت والے لمحات کی تلاش میں رہتے تھے ۔ وہ لمحات چاہے رمضان المبارک کی راتیں ہوں یاذوالحجہ کے ابتدائی ایام محرم الحرام ہو یا شب برآت ۔۔۔ ہمیں بھی شک و شبہے میں مبتلاء ہونے کی بجائے انہی اعمال پر واپس لوٹنے کی ضرورت ہے۔ محی السنة، قاطع البدعة امام الاولیاء حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جو شخص عاشوراء کے دن کسی یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرے گا اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہر بال کے عوض ایک ایک درجہ جنت میں بلند فرمائے گا۔(بحوالہ : غنیۃ الطالبین، جلد 2 صفحہ 53 ناشر: نعمانی کتب خانہ اُردو بازار لاہور )اسی طرح حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص عاشورہ کے دن غسل کرے تو وہ کسی لاعلاج مرض میں مبتلا نہیں ہو گا سوائے مرض الموت کے (بحوالہ : ایضاً) محدث شہرت علامہ محمد عبد الرؤف المناوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ تو بہ و استغفار کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کے ذریعے حکم ہوا کہ اپنی قوم کو کہیں کہ وہ دس محرم کو میری بارگاہ میں تو بہ واستغفار پیش کریں۔ میں ان کی مغفرت فرماؤں گا ( بحوالہ : فیض القدیر شرح جامع الصغیر جلد 3 صفحہ 34 ناشر : دارالحدیث قاہرہ)