عبقری میں بیان کردہ محرم الحرام کے نوافل کا ثبوت

آج برصغیر پاک و ہند میں جہاں کہیں بھی علم حدیث کا غلغلہ ہے اس کا سہرا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے سر پہ سجا ہوا ہے۔ محرم الحرام کی عبادات کے متعلق حضرت محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جو شخص محرم الحرام کی شب عاشورہ میں چار رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد 50 مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے تو مولا کریم اس کے 50 برس گزشتہ اور 50 برس آئندہ کے گناہ بخش دیتا ہے اور اس کیلئے ملاء اعلیٰ میں ایک ہزار محل تیار کرتا ہے( بحوالہکتاب: ما ثبت من السنۃ صفحہ 16 ناشر: مکتبہ دار الاشاعة بالمقابل مولوی مسافر خانہ کراچی) قطب الارشاد حضرت مولانا مظفر علی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یکم محرم کے دن دو رکعت نماز نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے۔ سلام کے بعد ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے۔ اللہ تعالیٰ اس کے اوپر دو فرشتے مقرر کر دیگا تا کہ وہ اس کے کاروبار میں اس کی مدد کریں اور شیطان لعین کہتا ہے کہ افسوس ! میں اس شخص سے تمام سال ناامید ہوا۔ وہ دعا یہ ہے: اللهم انتَ الْاَبْدُ الْقَدِيمُ وَ هَذِهِ سَنَةٌ جَدِيدَةٌ اَسْئَلُكَ فِيهَا الْعِصْمَةَ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ وَالْآمَانَ مِنَ السُّلْطَانِ الْجَابِرِ وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ ذِى شَرٍ وَ مِن الْبَلَاءِ وَالْأَفَاتِ وَاسْتَلْكَ الْعَوْنَ وَالْعَدْلَ عَلَى هَذِهِ النَّفْسِ الْأَمَارَةِ بِالسُّوءِ وَالْاِشْتِغَالِ بِمَا يُقَرِّبُنِي إِلَيْكَ يَابَرُ يَا رَؤُفُ يَا رَحِيمُ يَا ذَالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ(بحوالہ کتاب: جواہر غیبی ، ناشر : مطبع منشی نول کشور لکھنو )مولا نا محمد الیاس عادل صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جو شخص یکم محرم الحرام کی شب میں چھے رکعت نوافل پڑھے اور ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۃ الفاتحہ کے بعد دس دس مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس شخص سے چھے ہزار بلائیں دور کرے گا اور چھے ہزار نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھوا دے گا ( بحوالہ کتاب: بارہ مہینوں کی نفلی عبادات صفحه 15 ناشر : مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور )
گمشدہ چیزیں ڈھونڈنے میں ضرت امام الاولیاء کا خاص عمل

امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے جانشین حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیاہ کار بحری جہاز کے ذریعے عمرہ کیلئے روانہ ہوا تو کچھ رقم زاد راہ کے طور پر پاس تھی۔ عدن سے گزر کر خیال آیا تو اپنی اہلیہ محترمہ سے پوچھا انہوں نے کہا: رقم تو آپ ہی کے پاس تھی۔ میرے دل کو ذراسی بھی بے اطمینانی نہ ہوئی۔ میں نے سورۃ الضحی پڑھنا شروع کی اور چلنے لگا۔ آنکھوں کے سامنے ایک پرانی جراب آئی تو یاد آیا کہ وہ رقم تو اس میں رکھی تھی۔ پھر تصور ہی تصور میں ایک ڈرم نظر آیا۔ میں نچلی منزل پر چلا گیا۔ وہاں ایک کوڑا اٹھانے والا بیٹھا تھا، جو کہنے لگا کہ یہاں کچھ نہیں ہے۔ میں نے اس کی بات پر توجہ نہ کی اور غسل خانے میں داخل ہو گیا۔ اس نے آواز دی کہ ذرا ٹھہریں، مگر میں سورۃ الضحیٰ پڑھتا پڑھتا اندر چلا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہی ڈرم کو نے میں موجود ہے، جس کے اندر کچرا وغیرہ بھرا ہوا تھا۔ میں نے جھک کر دیکھا تو وہی جراب پانی میں لت پت موجود تھی۔ اسے لے کر باہر آ گیا ۔ کوڑے والا جلدی سے اندر گیا اور ڈرم اٹھا کر سارا کچر اسمندر میں پھینک دیا۔ میں نے سوچا کہ اگر دومنٹ بھی لیٹ ہو جا تا تو رقم بھی کوڑے کے ساتھ ہی سمندر میں چلی جانی تھی، مگر سورۃ الضحیٰ کی برکت سے ساری رقم بیچ گئی۔ اہلیہ محترمہ کو بتایا تو انہوں نے بھی اللہ پاک کا شکر ادا کیا( ماخوذ از : ہفت روزہ خدام الدین 28 مئی 1971 بحوالہ کتاب: پرتاثیر واقعات صفحہ 46 قسط نمبر 324 ناشر: مکتبہ یادگار شیخ اردو بازارلاہور )قارئین! درج بالا واقعہ پڑھ کے غور کریں کہ حضرت شیخ الوظائف دامت برکاتہم العالیہ جو چھوٹے بڑے تمام مسائل کے حل کیلئے عبقری اور تسبیح خانے کے ذریعے وظائف عنایت فرماتے ہیں، کیا یہ کوئی ان کی ذاتی ترتیب ہے یا گزشتہ تمام اکابر کا معمول ؟ الحمدللہ عبقری کے تمام وظائف قرآن وسنت کے عین مطابق ہیں، جن پر خواص اور عوام پوری دلجمعی سے عمل کرتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں سانپ کی سرگوشی

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ آرام کی غرض سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے سائے میں بیٹھے تو اچانک ایک کالا سانپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر اپنا منہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان کے قریب لے گیا۔ کچھ دیر بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سانپ کے کان کے قریب اپنا منہ مبارک لے جا کر کچھ فرمایا اس کے بعد وہ سانپ ایسے غائب ہوا جیسے اس کو زمین نگل گئی ہو۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اس سانپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب دیکھ کر ڈر گئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جانور نہیں، بلکہ جن تھا۔ فلاں سورت کی چند آیات بھول گیا تھا، انہی آیات کی تحقیق کیلئے جنات نے اسے بھیجا تھا۔ تم لوگ موجود تھے، اس لیے وہ سانپ کی شکل میں آیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک گاؤں میں پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس گاؤں کی ایک خوبصورت عورت پر ایک جن عاشق ہو گیا ہے۔ اس نے اسے اتنا پریشان کر رکھا ہے کہ وہ نہ کھاتی ہے نہ پیتی ہے بس مرنے کے قریب ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس عورت کو میں نے بھی دیکھا وہ ایسی تھی جیسے چاند کا ٹکڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکار کر فرمایا : اے جن! کیا تجھے معلوم ہے کہ میں اللہ کا رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں؟ تو اس عورت کو چھوڑ کر یہاں سے چلا جا۔ یہ سنتے ہی وہ عورت صحت یاب ہو گئی اور ہوش میں آنے پر اپنا منہ ہم سب سے چھپانے لگی ( بحوالہ کتاب : پرتاثیر واقعات صفحہ 95 مصنف: مولانا ابواحمد طه مدنی، ناشر: مکتبہ یادگار شیخ اردو بازار لاہور )
انسانوں اور جنات کی شادی کا اکابر سے ثبوت

انسانوں اور جنات کی شادی کا اکابر سے ثبوتمحترم قارئین ! عبقری کے ہر دلعزیز میگزین جنات کا پیدائشی دوست“ میں حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ہارون آباد (ضلع بہاولنگر) کے ایک رہائشی شخص کی جننی خاتون سے شادی ہونے کا تذکرہ فرمایا تھا۔ جسے پڑھ کر کئی لوگوں نے شک وشبے کا اظہار کیا کہ انسانوں اور جنات کی شادی کا بھلا کیا جواز ہے؟ اس سلسلے میں اگر چہ ہم پہلے بھی اکابر پر اعتماد کی کئی اقساط میں ثبوت فراہم کر چکے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کی قسط میں مولانا ابو احمد طه مدنی صاحب مدظلہ نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے!حضرت ابو یوسف سروجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قوم جنات میں سے ایک جن عورت مدینہ منورہ میں ایک شخص کے پاس آئی اور کہا کہ ہم تمہارے گھروں کے پاس اترے ہوئے ہیں، تم مجھ سے نکاح کر لو۔ لہذا ان کا آپس میں نکاح ہو گیا۔ جب رات ہوتی تو وہ عورت انسانی شکل میں اس شخص کے پاس آجاتی ۔ وقت یونہی گزرتا گیا۔ ایک مرتبہ وہی عورت آکر کہنے لگی : ہم نے اب چلے جانا ہے تم مجھے طلاق دے دو۔ چنانچہ اس شخص نے اسے فارغ کر دیا۔ ایک دفعہ وہ مدینہ منورہ کے کسی راستے میں جارہا تھا کہ اچانک اپنی سابقہ بیوی ( جننی ) کو دیکھا جو راستے میں سے دانے بن رہی تھی۔ اس نے کہا: کیا تم وہی جن عورت ہو ؟ جس کی مجھ سے شادی ہوئی تھی؟ یہ سن کر اس خاتون نے غصے سے کہا: تم نے مجھے کس آنکھ سے دیکھا ہے؟ وہ شخص بولا : اس آنکھ سے ۔۔۔اس عورت نے دور سے ہی اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو بے چارے آدمی کی آنکھ بہہ پڑی (بحوالہ کتاب:پرتاثیر واقعات، صفحہ 51 ناشر: مکتبہ یادگار شیخ ، غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور )
تسبیح خانے کے بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ والے عمل کا ثبوت

تسبیح خانے کے بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ والے عمل کا ثبوتکچھ عرصہ پہلے عبقری تسبیح خانے میں حضرت شیخ الوظائف دامت برکاتہم العالیہ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم بارہ ہزار مرتبہ پڑھنے کا ایک عمل ارشاد فرمایا تھا کہ جب ناممکن ترین مشکلات گھیر لیں اور پیچیدہ مسائل گھروں میں ڈیرہ جمالیں تو ان کے حل کیلئے پہلے دو رکعت نفل پڑھیں سلام پھیر کر ایک ہزار مرتبہ مکمل بسم اللہ پڑھیں ۔ پھر دو نفل پڑھیں، پھر ایک ہزار مرتبہ مکمل بسم اللہ ۔۔۔اس طرح 24 نوافل پڑھنے ہیں اور درمیان میں بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ پڑھنی ہے۔ یہ عمل ایک ہی نشست میں کرنا ہے یعنی جس دن یا جس رات شروع کریں، اسی دن مکمل کرنا ہے اور یہ عمل صرف ایک شخص نے کرنا ہے کئی افرادمل کر یہ عمل اجتماعی طور پر نہیں کر سکتے ۔ ہاں البتہ اپنا اپنا عمل گھر کا ہر فرد کر سکتا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اس عمل کے پیچھے کیسے کیسے جلیل القدر اکابر علمائے دین اور عظیم سلف صالحین کی دلیل موجود ہے۔ شہنشاہ عملیات حضرت علامہ خواجہ احمد دیر بی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : جو شخص مذکورہ بالا تر تیب کے مطابق بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ والا عمل کرے گا اس کی حاجت چاہے کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کے حکم سے پوری ہو جائے گی ( بحوالہ کتاب: مجربات دیر بی صفحہ 15 ناشر: فرید مبین پبلشرز ناظم آباد کراچی) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : مذکورہ بالا تر تیب کے مطابق نوافل کے دوران بارہ ہزار دفعہ بسم اللہ پڑھنا ہر قسم کی حاجات کے پورا ہونے کیلئے ایک تجربہ شدہ عمل ہے (بحوالہکتاب : اعمال قرآنی ،صفحہ 27 ناشر: حاجی شیخ غلام حسین اینڈ سنز’ تاجران کتب کشمیری بازار لاہور )بقیۃ السف حضرت مولانا محمد یونس پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بعض صالحین سے منقول ہے کہ جس شخص کو کوئی حاجت ہو وہ مذکورہ ترتیب کے مطابق بسم اللہ الرحمن الرحیم والا عمل کرے اور درود شریف پڑھ کے اپنی حاجت پورا ہونے کا سوال کرے۔ ان شاء اللہ حاجت اس کی جس طرح کی بھی ہوگی، پوری ہو جائے گی ( بحوالہ کتاب: بکھرے موتی ، صفحہ 333 ناشر بلسم پبلی کیشنز، اردو بازار لاہور ) حضرت مولانا اقبال احمد نوری صاحب لکھتے ہیں کہ : بسم اللہ شریف کی برکات سے کون واقف نہیں؟ اگر کوئی شخص اپنی مراد پوری کروانا چاہے تو اسے چاہئے کہ تازہ وضو کر کے ( درج بالا ترتیب کے مطابق ) بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ شریف پڑھے ان شاء اللہ ہر مراد پوری ہوگی ۔۔۔ یہ آزمودہ اور مجرب عمل ہے۔ (بحوالہ کتاب: شمع شبستان رضا جلد 4 صفحه 73 ناشر : قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش روڈ لاہور )
حضور سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بولنے والے بتوں کے منہ سے تصدیق

مولانا عطاء المصطفیٰ جمیل صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلے عام تبلیغ کرنے کا حکم ہوا تو مکہ کے مشرکین کو یہ بات نہایت ناگوار گزری اور ابوجہل، شیبہ کعب اور کنانہ نعوذ باللہ ساحر اور کذاب جیسے برے برے الفاظ کہنے لگے۔ ان میں سے ایک نے ولید سے پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ کہنے لگا کہ مجھے 3 دن سوچنے دو۔ ولید نے سونے چاندی کے دو بت بنائے ہوئے تھے۔ گھر جا کر اس نے مسلسل 3 دن ان کی پوجا کی اور کہنے لگا: اے میرے معبودو! میں اس عبادت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے بتاؤ محمد صلی علیہ وسلم سچے ہیں یا جھوٹے؟ اتنے میں مسفر نامی ایک کافر” جن بت کے اندر داخل ہو کر بولا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی نہیں ہیں، خبر دار ان کی تصدیق مت کرنا۔ ولید یہ سن کر خوش ہو گیا اور اگلے دن اپنا بت لے کر سب کے سامنے چلا گیا۔ سب نے اس بت کو سجدہ کیا۔ ساتھ ہی اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلا بھیجا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود بھی ساتھ تھے۔ جب سب لوگوں کے سامنے بت میں سے کافرجن کی آواز آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عبداللہ ! گھبرانے کی کوئی ضرورت السلام : نہیں، یہ قدرت کا ایک راز ہے۔ بہر حال اس محفل سے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمگین تھے ۔ اتنے میں انہیں ایک سبز لباس والا گھڑ سوار ملا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام پیش کیا اور عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کا مسلمان جن ہوں ۔ کوہ طور میں رہتا ہوں ۔ گھر آیا تو میری بیوی آج والا واقعہ بیان کرنے لگی کہ مسفر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے۔ لہذا میں اسی وقت نکل پڑا اور صفا و مروہ کے درمیان مسفر جن کو قتل کر کے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ہوں میری تلوار سے اسی کا خون ٹپک رہا ہے۔ میرا نام مہین بن العجبر “ ہے۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو اسی بت میں داخل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کروں؟ فرمایا : ہاں ! چنانچہ دوسرے دن پھر کافروں نے اپنے بت ہبل کو سامنے رکھ کے سجدہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلا لیا ۔ پھر کہنے لگے: اے ہمارے معبود! یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ آج بھی ان کی حقیقت بیان کیجئے۔ اتنے میں ہبل سے آواز آئی: اے مکہ والو! جان لو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں ۔ تم اور تمہارے بت جھوٹے ہیں ۔ تم لوگ گمراہ ہو۔ اگر تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے تو قیامت کے دن جہنم میں جاؤ گے۔ اٹھو اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرو کیونکہ یہ ساری مخلوقات میں سے افضل ہیں۔ ہبل کے منہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف سن کر ابو جہل غصے سے اٹھا اور اس بت کو توڑ دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے خوشی خوشی تشریف لے آئے۔ ( بحوالہ کتاب: جامع المعجزات فی سیر خیر البریات صفحہ 27 ناشر: فرید بک سٹال، اردو بازار لاہور )
رجال الغیب کا قرآن وحدیث میں ثبوت

محترم قارئین اتسبیح خانے میں ہونے والے شب جمعہ کے درس ہدایت میں حضرت شیخ الوظائف دامت برکاتہم العالیہ بعض اوقات رجال الغیب اولیائے کرام کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ ہماری اس کا ئنات میں کچھ ایسے مقربان بارگاہ الہی بندے بھی ہوتے ہیں، جن کی ڈیوٹیاں اللہ جل شانہ نے بعض مخصوص امور کی انجام دہی پر لگائی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ ایسی باتیں سن کر لاعلمی کی وجہ سے شرک کے شک میں پڑ جاتے ہیں، حالانکہ رجال الغیب ایک ایسا موضوع ہے، جس کے متعلق قرآن وسنت میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اللہ پاک جل شانہ نے سورۃ النازعات میں فرمایا ہے: فَالْمُدَتِرَاتِ آمرا ” ایسے فرشتے جو امور کی تدبیر میں لگے رہتے ہیں۔ یعنی بارش برسانا تو اللہ جل شانہ کا کام ہے، لیکن کب اور کہاں برسانی ہے، اس پر باقاعدہ فرشتہ مقرر ہے۔ رزق دینا اللہ جل شانہ کی شان ہے، لیکن مخلوق تک رزق پہنچانے پر فرشتے مقرر ہیں۔ اولا د دینا اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہے، لیکن حاملہ عورت کے پیٹ میں روح پھونکنے پر فرشتے کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح رجال الغیب اولیائے کرام کیلئے بھی مخصوص ڈیوٹیاں مقرر ہیں، جو وہ پوری ذمہ داری سے نبھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے اکا بر کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہما السلام بھی رجال الغیب میں شامل ہیں۔ مولانا امداد اللہ انور جامعہ اشرفیہ لاہور لکھتے ہیں : اہل بیت کے شہسوار حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام دونوں ہر سال موسم حج میں ملاقات کرتے ہیں اور ان کلمات پر علیحدہ ہوتے ہیں : بسم اللہ ماشاء الله لا يسوق الخير الا الله ، ما كان من نعمة فمن الله ،بسم اللہ ماشاء اللہ لا یصرف السوء الا الله ماشاء الله لا حول ولا قوة الا بالله یہ حدیث بیان کر کے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو شخص ان کلمات کو صبح و شام تین مرتبہ پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اسے غرق ہونے سے ،جل جانے سے، چوری ہونے سے،شیطان سے ، بادشاہ کے ظلم سے ، سانپ سے اور بچھو سے محفوظ رکھے گا (دار قطنی صفحه ۲۲۵، تاریخ ابن عساکر صفحه ۷۴۰ ، تہذیب تاریخ دمشق صفحه ۱۵۵، اتحاف السعادۃ صفحہ ۱۱۲ ، البدایہ والنہایہ صفحہ ۳۳۳، کنز العمال صفحه ۳۴۰، در منشور صفحه ۲۴۰ ، لسان المیزان صفحه ۹۲۰، شرح السنه صفحه ۴۴۳ بحوالہ کتاب: تاریخ جنات و شیاطین صفحہ 225 ناشر : دار المعارف تحصیل جلال پور، ملتان)
شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ جنات کی وادی میں پانی لینے پہنچ گئے

حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک دفعہ میں حمص سے چلا تو راستے میں رات کے وقت ایک جگہ وہاں کے جنات میرے پاس آگئے۔ میں نے اسی وقت سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی ” إِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ۔ یہ سنتے ہی جنات نے ایک دوسرے سے کہا : اب تو صبح تک اس کا پہرہ دینا پڑے گا۔ چنانچہ انہوں نے ساری رات ( مجھے تنگ کرنے اور ڈرانے دھمکانے کی بجائے ) میرا پہرہ دیا۔ صبح کو میں سواری پر بیٹھا اور آگے چل پڑا۔(اخرجہ الطبرانی بحوالہ کتاب: حیاۃ الصحابه صفحه ۴۵۹ حصہ سوم، ناشر: زمزم پبلشرز، کراچی) علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ واپس لوٹے تو راستے میں مقام جحفہ پر قیام کیا اور فرمایا تم میں سے کون باہمت ہے جو فلاں کنویں سے پانی لے آئے ، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ایک صحابی نے عرض کی کہ میں جاتا ہوں۔ حضرت سلمہ بن اکوع ” بھی ان کے ساتھ تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب ہم کنویں کے قریب پہنچے تو وہاں کے درختوں سے عجیب وغریب آوازیں آرہی تھیں اور ان سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے۔ ہم ڈر کے واپس آگئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ جنات تھے، اگر تم میرے کہنے کے مطابق چلے جاتے تو وہ تمہیں کچھ نہ کہتے۔ پھر ایک اور جماعت بھیجی ، وہ بھی ڈر کر واپس لوٹ آئی۔ بالآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر پانی لینے بھیجا۔ ان کے ساتھ بھی ایک جماعت تھی جو ایسا خوفناک منظر دیکھتے ہی ڈر گئی حتی کہ ان خوفناک درختوں سے کٹے ہوئے سر ظاہر ہونے لگے ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ڈرو نہیں ! یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور ” اعوذ بالرحمان” پڑھتے ہوئے کنویں کے قریب پہنچ گئے۔ کنویں میں سے پانی نکالنا شروع کیا تو وہاں سے بھی قہقہوں کی خوفناک آوازیں آتی رہیں۔ مگر انہوں نے اطمینان سے پانی بھرا اور واپس آگئے۔ راستے میں ہاتف غیبی کی آواز آئی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں منقبت پڑھ رہا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر ماجرا سنایا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ با تف” عبد اللہ جن” تھا، جس نے بتوں کے شیطان مسعر کو کوہ صفا میں قتل کیا تھا۔( بحوالہ کتاب: جن ہی جن صفحہ ۱۱۸ ناشر: سیرانی کتب خانہ، نزدسیرانی مسجد بہاول پور ) محترم قارئین ! اس سے ثابت ہوا کہ عبقری میگزین میں شائع ہونے والے سلسلہ وار کالم ” جنات کا پیدائشی دوست“ میں ہر بات برحق ہے، جو صرف موجودہ زمانے میں ہی نہیں، بلکہ ہمارے اکابر و اسلاف کے مبارک زمانے سے چلی آرہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اب بڑھتے ہوئے فتنوں کی وجہ سے ہمارے مطالعے میں کمی آگئی اور ہم نے حقائق کو بھی من گھڑت افسانہ کہنا شروع کر دیا۔ جبکہ بیسیوں کتابوں کے اوراق ایسے سچے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کوئی انہیں پڑھے تو سہی ،،،!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جنات کا پیدائشی دوست“ کون تھا ؟

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک کیلئے جارہے تھے۔ صحرا کے دو درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جابر ! ان درختوں سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت کیلئے پردہ درکار ہے، لہذا اے درختو ! تم آپس میں مل جاؤ تا کہ تمہارے پردے کی آڑ کو استعمال کیا جا سکے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے درختوں کو یہ حکم سنایا تو انہوں نے فورا تعمیل کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو میں پانی کا برتن لے کر حاضر ہوا ۔ میں نے دیکھا کہ زمین بالکل خشک تھی اور قضائے حاجت کا نشان تک نہ تھا۔ میری حیرانی کو دیکھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جابر ! زمین کو حکم ہے کہ وہ میرے فضلات کو جذب کرلیا کرے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ابھی ہم کچھ دور گئے ہوں گے تو اچانک ایک بہت بڑا اژدها نمودار ہوا۔ جو اونٹ کی گردن کے برابر موٹا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ہماری سواریاں بدک گئیں۔ وہ اژ دھا سیدھا حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کنڈلی مار کر اپنی دُم پر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اپنا منہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کان مبارک کے قریب کر دیا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے صحابہ کرام سخت پریشان تھے۔ کچھ دیر بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اژدھے کے کان میں کچھ فرمایا تو اژ دھا نظروں سے یوں غائب ہو گیا، جیسے اسی جگہ زمین میں سما گیا ہو۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا بلا تھی ؟ فرمایا : یہ سانپ نہیں، بلکہ جنات کا قاصد تھا۔ میں نے جنات کے ایک گروہ کو مسلمان کر کے انہیں قرآن کی ایک سورت یاد کروائی تھی۔ اب انہیں چند آیات میں مشابہ لگ گیا تھا تو اس کی اصلاح کیلئے انہوں نے اس قاصد کو بھیجا جسے میں نے دوبارہ یاد کروادیا ہے(بحوالہ کتاب: جامع المعجزات فی سیر خیر البریات صفحہ101 مصنف: شیخ محمد الواعظ الرھاوی ناشر: فرید بک سٹال اردو بازار لاہور )محترم قارئین ! اس سے ثابت ہوا کہ ہر دور میں ایسی بزرگ ہستی موجود رہی ہے، جس کی غلامی اختیار کرنا جنات اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ ہاں البتہ یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے رسول تھے جن کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے لیکن ان کا عنایت کردہ دین سیکھنے سکھانے کی محنت تو قیامت تک جاری رہنی ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام سے جنات نے دین سیکھا ان کے بعد تابعین سے پھر تبع تابعین سے پھر فقہاء ومحدثین سے اور پھر اولیاء وصالحین سے ۔۔۔ یہی سلسلہ چلتے چلتے دور حاضر میں حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ تک پہنچا جو عبقری میگزین میں ہر ماہ سلسلہ وار کالم کے ذریعے جنات کے ساتھ بیتے سیچی زندگی کے سچے واقعات بیان کرتے ہیں
!مردہ خاتون کی قبر سے زندہ بچے کی پیدائش

محترم قارئین! ماہنامہ عبقری میں بیان کردہ جنات کے ماوراء العقل یا روحوں کے حیرت انگیز واقعات کے متعلق کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں ۔ دین تو قرآن وحدیث کا نام ہے قصے کہانیوں میں کیا رکھا ہوا ہے؟ حالانکہ جب ہم قرآنی اسلوب پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک جل شانہ نے بھی جہاں ضروری سمجھا وہاں پہلی امتوں کے قصے بیان فرما کر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت و رہنمائی فرمائی۔ کیونکہ انسان ہمیشہ اپنے سے پہلے لوگوں کے واقعات سن کر عبرت حاصل کرتا اور اپنی دنیا آخرت کو بہتر بنانے کا سبق سیکھتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی محفل میں کس طرح کے حیرت انگیز واقعات بیان کیے جاتے تھے۔ مولانا محمد ہارون معاویہ صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوا۔ دونوں میں اس قدر مشابہت تھی کہ امیر المومنین رضی اللہ عنہ حیران ہو گئے ۔ اس شخص نے کہا: اے امیر المومنین ! میرے اس بیٹے کی پیدائش کا قصہ بہت عجیب ہے۔ جب میری بیوی حاملہ ہوئی تو مجھے ایک جہادی معرکہ میں جانا پڑ گیا۔ بیوی کہنے لگی : آپ مجھے اس حالت میں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ میں نے کہا: استودع الله ما في بطنك (تیرے پیٹ میں جو کچھ ہے میں اسے اللہ تعالیٰ کی سپر د کرتا ہوں ) یہ کہہ کر میں جہادی مہم پر چلا گیا۔ کافی عرصے بعد جب واپس آیا تو یہ درد ناک خبر ملی کہ میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ جنت البقیع میں دفن ہے لیکن ساتھ ہی ایک حیرت انگیز بات بھی معلوم ہوئی کہ روزانہ رات کو اس کی قبر سے آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں۔ میری بیوی پاک باز اور نیک عورت تھی۔ چنانچہ میں اس کی قبر پر گیا اور آنسو بہاتے ہوئے دعا کی۔۔۔ دیکھا تو وہاں قبر کھلی ہوئی تھی اور یہ بچہ بھی موجود تھا جو اس وقت بھوک کی وجہ سے بلبلا رہا تھا۔ میں اسے لینے کیلئے آگے بڑھا تو یہ آواز سنائی دی : اے اپنی امانت کو اللہ تعالیٰ کی سپرد کرنے والے ! اپنی امانت لے جاؤ۔ اگر تم اس کی ماں کو بھی اللہ کی سپر د کر جاتے تو آج وہ بھی تمہیں زندہ سلامت ملتی۔ لہذا میں نے اس بچے کو قبر سے اٹھایا تو قبر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔ اے امیر المومنین ! یہ وہی بچہ ہے (کتاب الدعاء للطبرانی جلد 2 صفحہ 1183 بحوالہ کتاب : کتابوں کی لائبریری میں، صفحہ 130 ناشر : مکتبہ بیت السلام انار کلی بازارلاہور )