حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کی جن سے پر اسرار ملاقات سے

علامہ لاہوتی صاحب کی جنات سے ملاقات کو کہانی اور افسانہ کہنے والے لوگ دراصل تعلیمات اکابر سے نا آشنا ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنے اکا بر کی زندگی کو پڑھنے کیلئے کچھ نہ کچھ وقت ضرور فارغ کریں۔۔۔! ذیل میں تاریخ کی ایک بہت بڑی علمی ہستی کی ”جن“ سے ملاقات کا حیرت انگیز واقعہ پیش خدمت ہے۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ایک ”جن“ سے قندھاریہ میں ملاقات ہوئی ، وہاں کسی شخص کے اوپر جن کا اثر تھا اور وہ شخص ان پڑھ ہونے کے باوجود قرآن شریف پڑھتا اور مسائل و علوم معارف بیان کرتا، اور جب ” جن کا ارختم ہوجاتا تو وہ شخص اسی طرح جاہل ہو جا تا تھا۔ ایک مرتبہ جب میں صبح کی نماز کے بعد اس شخص سے ملا تو اسکی ایسی حرکات تھیں جو ہوش والے انسان کی نہیں ہوتیں جیسے مدہوش ہو، جب وہ شخص بیٹھا تو اس کی آنکھیں اوپر کی جانب چڑھ گئیں ، پتلیاں بالکل غائب ہوکر سفیدی رہ گئی ، اس کی آنکھیں دیکھ کر ڈر محسوس ہوتا تھا، کچھ دیر میں اس کا سانس چلا اور وہ وہیں بے ہوش ہو کر گر گیا، جب وہ اٹھا تو اس کا سانس ٹھکانے نہیں تھا، پھر وہ بولنا شروع ہوا، اس کی آواز میں ایک ڈراؤنا پن تھا، اس جن نے مجھے سلام کیا ، میں نے وعلیکم السلام کہا۔ اس ”جن“ نے معانقہ کرنا چاہا۔ میں نے کہا اناللہ وانا الیہ راجعون ، میں ”جن” سے کیا معانقہ کروں؟ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اس جن سے معانقہ کیا ، وہ جن بیٹھ گیا۔ اس جن کا نام پوچھا تو اس نے عباس سے ملتا جلتا کوئی نام بتایا۔ میں نے کہا آپ کہاں رہتے ہو؟ تو اس ”جن“ نے بمبئی کے قریب ایک جزیرہ کا نام بتایا۔ میں نے کہا آپ اس شخص کو کیوں ستاتے ہو؟ وہ جن“ کہنے لگا اس شخص کو مجھ سے اور مجھے اس سے تعلق ہے جب میں اس کے پاس نہیں آتا تو یہ مجھے ڈھونڈتا ہے۔ میں نےجن“ سے کہا آپ ہمیں کیا نفع پہنچا سکتے ہو؟ کہ ہم نے آپ جنات کو بہت نفع پہنچایا ہے ۔ وہ جن کہنے لگا : وہ کس طرح؟ میں نے اس جن سے کہا : آپ لوگ ہمارے شاگرد ہو، دار العلوم میں ہمارے بزرگوں سے ”جنات“ نے علم حاصل کیا ہے ، اور مولانا یعقوب صاحب کے زمانے میں جنات ظاہر بھی ہوئے تھے، آپ جنات“ ہمارے استاذ اور شاگرد بھی ہیں شاگرد اس طرح کہ دار العلوم میں پڑھا ہے اور استاذ اس طرح کہ شاہ ولی اللہ نے حدیث الجن کو نے قاضی جنات سے نقل کیا ہے ۔ پھر میں نے اس جن سے کہا تم دار العلوم کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہو؟ وہ ”جن“ خاموش رہا ہو کر بیٹھ گیا ۔ لوگوں نے اس جن سے پوچھا کہ تو خاموش کیوں ہو گیا تھا۔ وہ ”جن“ کہنے لگا: مجھے اس وقت کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ ( خطبات حکیم الاسلام ج 7 ص 258، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ناشر: مکتبہ امدادیہ ملتان ) محترم قارئین! ایک بات یادرکھیں اکابر کی زندگی علم اور عقل سے نہیں ادب سے سمجھ میں آتی ہے جو چیز ہماری سمجھ میں نہ آئے ہم اس پر اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں علامہ لاہوتی صاحب کی ” جنات سے ملاقاتوں کا انکار کر کے نشانہ تو سارا کا سارا ہمارے اکابر پر ہی پڑتا ہے۔۔۔!
بغیر شملہ کے عمامہ ۔۔۔ تعلیمات اکا بر کی روشنی میں

میں نے شیخ الوظائف دامت برکاتہم کی زندگی کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے اللہ کے فضل وکرم سے آپ کی زندگی کا ایک ایک پہلو شریعت کے سانچے اور تعلیمات اکابر کی طرز زندگی میں ڈھلا ہوا ہے ۔ میں نے جہاں تک دیکھا آپ کی زندگی میں کوئی ایک پہلو بھی اکابر کی زندگی سے ہٹ کر نہیں پایا۔ عمامہ کے بارے میں موجود روایت پر تفصیلی نگاہ کرنے کے بعد علمائے کرام اور فقہائے عظام نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عمامہ کا شملہ سن زوائد میں سے ہے یعنی شملہ کا رکھنا اور نہ رکھنا دونوں طرح ٹھیک اور جائز ہے ذیل کی تفصیل سے یہ بات آپ کو با آسانی سمجھ میں آجائے گی : علمائے کرام فرماتے ہیں کہ شملہ چھوڑنے کی کوئی پابندی نہیں ہے اور شملہ ضروری نہیں ہے ۔ (1)۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ : دار الافتاء بنوری ٹاؤن کے مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ شملہ چھوڑنے اور نہ چھوڑنے دونوں کے بارے میں کوئی پابندی نہیں، دونوں ہی طرز درست ہیں ۔ عمامے کے کپڑے کے بارے میں کسی قسم کی تعیین احادیث میں وارد نہیں، جو کپڑا میسر ہو، عمامہ باندھا جا سکتا ہے۔(فتوی نمبر :143610200037)(2)۔ امام نووی کا فتوی: شارح صحیح مسلم امام ابوز کر یا محی الدین کو وی رحمہ اللہ اپنی کتاب ” المجموع شرح المھذب میں عمامے کے شملے کے متعلق لکھتے ہیں کہ عمامہ شریف کا شملہ لٹکانا اورنہ لٹکانا دونوں برابر ہیں اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اختیار کرنا مکروہ نہیں ہے ( یعنی نہ عمامہ کا شملہ لڑکانے میں کوئی کراہت ہے اور نہ ہی ترک کرنے میں کوئی کراہت ہے ) ( الجموع شرح المھذب، ۴۵۷/۴) (3)۔ دارالعلوم کا فتوی (انڈیا): آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ کے دو شملے چھوڑنا ، ایک شملہ چھوڑنا اور بغیر شملہ چھوڑے عمامہ باندھنا ہر طرح ثابت ہے، پس تینوں طریقوں پر عمامہ باندھنا مسنون ہوگا : وقد ثبت فى السير بروايات صحيحة أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم كان يرخى علامته أحيانا بين كتفيه وأحيانا يلبس العمامة من غير علامة فعلم أن الإتيان بكل واحد من تلك الأمور سنة(مرقاة: ۲۵۰/۸ بحوالہ فتوی نمبر 9848) (4) ۔ شیخ علامہ عبدالحق دہلوی کا فتوی: حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شملہ لڑکا نا مستحب اور سنن زوائد( یعنی سنت غیر مؤکدہ) میں سے ہے۔ اسے ترک کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ (کشف الالتباس فی استحباب اللباس، ذکر شملہ ص ۳۹ ملخصا) (5)۔ حضرت مولانا احمد رضا خان رحمہ اللہ کا فتویٰ: حضرت مولانا احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: عمامہ کا شملہ رکھنا سنت عمامہ کی فرع اور سنت غیر مؤکدہ ہے۔ ( یعنی ضروری نہیں ہے اگر کوئی شملہ نہ رکھے تو گناہ گار نہیں ہوتا ) یہاں تک کہ مرقاۃ میں فرمایا : قد ثبت في السير برِوایاتِ صَحِيحَةٍ أَنَّ النَّبِي صَلَّى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّم كَان يَرخى علامته أحيانا بَينَ كَتِفَيهِ وَأحيانا يَلبَسُ العِمَامَةَ مِن غَيرِ عَلامَةٍ فَعُلِم أَنَّ الإِنيَانَ بِكُلِ وَاحِدٍ مِّن تِلكَ الأُمُورِ سُنَّة ( يعنى ) كتب سیر میں روایات صحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عامہ کا شملہ دونوں کاندھوں کے درمیان چھوڑتے بھی بغیر شملہ کے باندھتے ۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان امور میں سے ہرایک کو بجالا نا سنت ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثانی ۱۴۶/۸، تحت الحدیث :۴۳۳۹) (6)۔ ادارہ منہاج القرآن کا فتوی: عمامہ کی لمبائی ضرورت کے مطابق رکھ سکتے ہیں کوئی شرعی قید نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھنے کا کوئی طریقہ مختص نہیں فرمایا، لہذا جو مناسب ہو وہ طریقہ اپنا سکتے۔ (فتوی نمبر 4120) محترم قارئین! ان گزارشات کے بعد یہ بات آپ بخوبی جان چکے ہوں گے شیخ الوظائف لباس تک کے معاملے میں اپنے اکا بر کی تعلیمات پر سو فیصد کار بند ہیں تو دوسری چیزوں میں کیسے ان کی تعلیمات کو فراموش کر سکتے ہیں۔ شملہ کے ساتھ یا بغیر شملہ کے عمامہ پہننا دونوں طرح سے جائز ہے اور تعلیمات شرعیت اور تعلیمات اکابر کے عین مطابق ہے (مفتی محمد فرقان محمود متخصص جامعہ بنوریہ، کراچی)۔
ناخن کاٹیں مالدار بنیں اور بیماری بھگائیں ۔۔۔!

حضرت جابر سے مرفوعاً روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ناخن تراشو ناخن اور اور گوشت کے درمیان شیطان دوڑتا ہے۔خطیب فی الجامع ، اتحاف ج 2 ص 411، شمائل کبری ، سنت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم)امام غزالی احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ بڑھے ہوئے ناخن پر شیطان بیٹھتا ہے(احیاء العلوم الدین ج 2 ص 411)ملاعلی قاری نے لکھا ہے کہ ناخن نہ کاٹنا اور بڑھے ہوئے رکھناتنگی رزق کا باعث ہے(مرقات ج 4 ص 457 بحوالہ شمائل کبری ج 2 ص 404)حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب بن مفتی احمد الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ دوران درس مسلم شریف حضرت مفتی نظام الدین شامزئی ( شیخ الحدیث جامعہ بنوری ٹاؤن ) نے فرمایا کہ کہ امام نووی نے لکھا ہے کہ جمعرات کے دن ہاتھوں اور پیروں کے ناخن کاٹنے سے مالداری آتی ہے اور غربت وافلاس کا خاتمہہوتا ہے۔حضرت مفتی نظام الدین شامزی صاحب کے اس فرمان کے بعد میں نے اس عمل کو بار ہا آزمایا میرے بعض دوستوں نے میرے بتانے پر اس پر عمل کر کے مجھے بتایا کہ جب سے اس نسخے پر عمل کیا ہے جیب کبھی بھی خالی نہیں ہوئی آپ بھی کریں انشاء اللہ آپ کو بھی فائدہ ہوگا۔ (شفاءورحمت ،ص325، مصنف مولانا صاحبزادہ عزیز الرحمن صاحب، ناشر: حاشر پبلشرز )محترم قارئین ! عبقری اگر چھوٹے چھوٹے اعمال پر بڑے بڑے فائدوں کا ذکر کرتا ہے تو وہ فائدے اپنی طرف سے خود ساختہ نہیں ہوتے ۔۔۔ ! بلکہ قرآن وسنت اور اکابر سے منقول ہوتے ہیں اور میں ایک بات جانتا ہوں کہ ہمارے اکابر ہم سے زیادہ سمجھ دار، ذی شعور اور باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی مشاہداتی زندگی میں بھی با کمال تھے ( مولانا ابوعون محمد غزالی ، جہلم ، فاضل جامعہ امدادیہ )۔
اکابر پر اعتماد ایک نورانی نور ۔۔۔ جس سے ہر گمراہی دور

البركة مع اکابر هم الحمد للہ آپ حضرات نے اکابر پر اعتماد کے نام سے جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ بہت ہی لائق تعریف و تحسین ہے کیونکہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنے استاذ امام الصرف والنحو حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب چشتی دامت برکاتہم کی وہ نصیحتیں یاد آتی ہیں جو وہ مدرسہ کی چاردیواری میں ہم کو نہایت مخلص ہو کر کیا کرتے تھے اور وہ ساری نصیحتیں اکابر پر اعتماد سے متعلق ہوتی تھیں انتہائی خوشی ہوتی ہے کہ جو کام استاذ محترم جامعہ مدنیہ جدید کی چار دیواری میں بیٹھ کر کیا کرتے تھے وہی کام عبقری سارے عالم میں پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ "أكابر پر اعتماد ” کیسے بنے گا؟ اس حوالہ سے میں استاد جی کے چند سنہری ملفوظات ذکر کرتا ہوں فرمایا اگر تمہارے پاس اکابر پر اعتماد اور انکی محبت موجود ہے تو پھر اگر علم تمہارے پاس قطرہ ہوگا اللہ اس کو سمندر بنادے گا اور اگر اکابر پر اعتماد اور ان سے محبت نہیں تو پھر اگر علم سمندر ہوا وہ بھی قطرہ بن جائے گا ۔ فرمایا کرتے تھے میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے طلبا اور علمائے کرام کو اکابر پر اعتماد سے جوڑوں ان کے دلوں میں اکا بر سے محبت اور اعتماد کو پختہ کروں کیونکہ اکابر پر اعتماد و محبت کی وجہ سے فتنوں سے اللہ حفاظت فرماتے ہے۔ فرمایا ایک مرتبہ میں امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صاحب نقشبندی کے ہاں گیا تو انہوں مجھے خلافت سے نوازا اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ طلبا کو اکابر پر اعتماد سے جوڑتے ہو یہ بہت اچھی بات ہے۔ اکثر فرماتے ہیں کہ ہم دوسروں کے طرف مائل کیوں ہوں ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایسے اکابرین سے جوڑا ہوا ہے جن کا جنتی ہونا اللہ نے دنیا میں دیکھا دیا۔۔۔۔! جن کی قبروں سے جنت کی خوشبوں آئی ۔ فرمایا کہ اکا بر سب بڑے تھے اور ہر بڑے پر کسی نہ کسی بڑے کا سایہ ضرور ہوتا تھا فرمایا ” اکابر پر اعتماد ” کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سارا بوجھ ا کا برین پر چلا جاتا ہے ہم چھوٹوں کا کام یہ ہے کہ اپنے بڑوں سے رہنمائی لے لیں اور بھاگتے ہوئے جنت میں پہنچ جائیں۔ فرما یا اپنے بڑوں کی مجلس میں آنے جانے سے دل بھی بڑا ہو جاتا ہے اور اگر بڑوں کی مجلس میں آنا جانا نہ ہو تو پھر ہر بات پر اعتراض ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہوا کیسے ہوا۔۔۔!قارئین محترم ! آپ حضرات کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہمیں اس وقت ” اکابر پر اعتماد” اور ان سے محبت کی شدید ضرورت ہے۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے ! میرے پیارےمرشد حضرت اقدس شیخ الوظائف حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی صاحب کو جنہوں نے اکابر پر اعتماد” کے نام سے یہ سلسلہ شروع کروا کر ہم سب پر احسان عظیم کیا۔ (مولانا محمد نیاز ، فاضل : جامعه مظاهر العلوم، آراے بازار، لاہور )۔!
علامہ لاہوتی صاحب کی طرح حالت بیداری میں زیارت النبی صلى الله عليه وسلم کا فیض پانے اولیائے کرائم

علامہ لاہوتی صاحب دامت برکاتہم کے واقعات میں بارہا حالت بیداری میں زیارت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ملتا ہے ہمارے اکا بر کی زندگی میں بھی بہت سے اس قسم کے واقعات ملتے ہیں چند اکابر پر اعتماد کے دوستوں کی خدمت میں پیش خدمت ہیں:(1) حضرت مولانا عبید اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ بانی تبلیغ حضرت مولانا الیاس کو نسبت حضوری حاصل تھی ایک مرتبہ خصوصی خدام کی مجلس میں فرمایا جب دل کو طلب ہوتی ہے سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بند کرتے ہی زیارت ہو جاتی ہے بحوالہ کرامات و کمالات اولیاء ج 1 ص 78، مجموعہ ارشادات شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف متالا صاحب ، ناشر :از هراکیڈمی لندن)(2) حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کے خاص خدام فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ فرمانے لگے یہ جنت ہے یہ جنت ہے چاروں سمت ہاتھ سے اشارہ کرتے رہے اور فرمانے لگے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے کر آئے ہیں۔ ( بحوالہ تذکرہ حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی ، ص89، مصنف: مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، ناشر : مجلس صحافت ونشریات لکھنو)(3) قطب ربانی امام شعرانی اپنی کتاب ”میزان میں لکھتے ہیں کہ شیخ سید محمد بن زین کو اکثر حالت بیداری میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو جایا کرتی تھی ( بحوالہ براہین قاطعہ ، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، 222، ناشر: دارالاشاعت کراچی) شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ محض دلیل و برہان سے نہیں بلکہ دیکھتی آنکھوں سے بیداری میں حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت با برکت سے مشرف ہوں اور یہ مقام تو میرے بہت سے بھائیوں کو بھی حاصل ہے جیسے شیخ سید احمد الرفاعی اس دولت کبری سے حالت بیداری میں مالا مال ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت کے تخت پر بٹھایا (سعادت دارین ج 2 ص 98)محترم قارئین! آج اللہ کریم کے فضل سے عبقری کا پیغام سارے عالم میں پھیل گیا اس کی وجہ مخلصین کا اخلاص اور اہل اللہ کی سر پرستی ہے جو لوگ اب تک اس ماحول سے دور ہیں ان سے گزارش ہے ضرور تسبیح خانہ لاہور میں ایک مرتبہ آکر ماحول کو دیکھیں اللہ کریم کی عطا سے زندگی ایمان وسنت کے نور سے مزین اورا کا بر کی محبت سے لبریز ہو جائے گی۔انشاءاللہ
تسبیح خانہ کا ماہانہ دم۔۔۔ تعلیمات اکابر کے سنگ
تسبیح خانہ لاہور میں شیخ الوظائف دامت برکاتہم ہر ماہ اسم اعظم کا روحانی دم فرماتے ہیں جس سے بلا مبالغہ لاکھوں سے زیادہ لوگ فیض یاب ہورہے ہیں ۔ یہ ترتیب شیخ الوظائف کی خود ساختہ نہیں ہے، بلکہ ہمارے اکا بر کی زندگی میں ایسے بہت سارے واقعات ملتے ہیں جس میں وہ مخلوق خدا (خواتین و حضرات) کو دم فرما کر ان کو راحت اور سکون دیتے اور اللہ کے نام کے ذریعے ان کے دکھوں کا مداواکرتے تھے اکابر پر اعتماد کے دوستوں کی رہنمائی کیلئے ایک واقعہ پیش خدمت ہے: مولا نا اعجاز احمد صاحب اعظمی لکھتے ہیں کہ ایک غیر مسلم عورت شیخ حماد اللہ ہالیجوی کے پاس آئی وہ پنو عاقل کے قریب سے آئی تھی۔ ہند تھی اور چند ایک آدمی اس کیساتھ تھے نہایت روتی چلاتی ہوئی آئی کہ ہائے میں مرگئی ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا ہوا ہے؟ ساتھ آدمیوں نے بتایا کہ اس کے سینے پر پھوڑا ہے جس کی وجہ سے نہایت درد ہے اور کئی دن سے بے تاب ہے، نیند نہیں آتی ۔ حضرت نے مسجد سے باہر بیٹھنے کا حکم دیا وہ لوگ بیٹھ گئے اور حضرت نے مسجد کے اندر سے ہی دم کرنا شروع کر دیا اور اپنی داہنی انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے رہے، فوراً اس عورت کو آرام آگیا اور اس کو وہیں نیند آگئی۔ پھر حضرت نے مٹی کے ایک پاک ڈھیلے پر دم کر دیا اور فرمایا کہ اس کو پھوڑے پر پھیرتے رہو ان شاء اللہ شفاء ہوگی۔ تو وہ ہندو برادری کے لوگ دُعائیں دیتے ہوئے واپس چلے گئے۔ (تجلیات ص, 140 حوالہ: تذکرۃ الشیخ ہالیجوی "ص – 225- تالیف : حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی، ناشر: مکتبہ حمادیہ کراچی) محترم قارئین! میں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کرتسبیح خانہ لاہور کا ایک عمل بھی اکابر کی زندگی سے ہٹ کر نہیں ۔۔۔ صبح سے لیکر شام اور شام سے صبح تک ہر عمل نہایت ہی مستند ، جاندار اور شاندار ہے آپ سے گزارش ہے کہ آپ بھی ضرور ان بابرکت نورانی اعمال میں شریک ہو کر مسنون اعمال اور اکابر پر اعتماد والی زندگی گزاریں اور حیرت انگیز برکات کا مشاہدہ کریں۔( پروفیسر محمد زبیر صاحب، لاہور)
علامہ لا ہوتی صاحب کی طرح دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے والے اولیائے کرام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے حقیقت میں دیکھا وہ آنکھیں کتنی خوش نصیب ہیں جنہیں زندگی میں ایک مرتبہ خواب میں زیارت النبی صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہو جائے ۔۔۔! اور وہ وجود کتنے ہی سعادت مند ہوں گے جنہیں حالت بیداری میں زیارت باسعادت بار ہا نصیب ہوتی ہے ایسی سعادت مند ہستیوں میں آج کے دور میں علامہ لاہوتی پراسراری صاحب بھی ہیں، تاریخ کے اوراق سے چند واقعات اکابر پر اعتماد کے دوستوں کیلئے پیش خدمت ہیں:حضرت عبد اللہ بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن صالح کے انتقال کے بعد میں ان کے بھائی شیخ حسن بن صالح ”ل کے پاس تعزیت کیلئے آیا تو مجھے وہاں رونا آگیا وہ کہنے لگے کہ رونے سے پہلے ان کے انتقال کی کیفیت سن لو، کیسے لطف کی بات ہے کہ جب ان پر نزع کی تکلیف شروع ہوئی مجھ سے پانی مانگا جیسے ہی میں پانی لے کر آیا تو فرمانے لگے میں نے تو پانی پی لیا میں نے دریافت کیا کہ کس نے پلایا ؟ تو فرمانے لگے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں کی بہت سی صفوں کے ساتھ تشریف لائے تھے ، انہوں نے مجھے پانی پلا دیا۔ مجھے خیال ہوا کہ کہیں غفلت میں نہ کہہ رہے ہوں اس لئے پوچھا کہ فرشتوں کی صفیں کس طرح تھیں؟ بولے اس طرح اوپر نیچے تھیں اور ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کے اوپر کر کے بتایا۔ فضائل صدقات حصہ 2 ص 128 مصنف شیخ الحدیث مولانامحمد ذکریا، کتب خانہ فیضی)۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بالمشافہ حالت بیداری میں اور خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث سنیں اور بعض کی اصلاح بھی فرمائی جنہیں آپ نے ایک کتاب در ثمین“ کے نام سے شائع کیا۔(ماہنامہ الفرقان ولی اللہ نمبر )شیخ محمد بن ابی الحمائل کثرت سے بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا کرتے تھے یہاں تک کہ جب کسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے کہ میں اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرلوں اس کے بعد اپنا سر گریبان میں لے جاتے اور پھر فرماتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں یہ فرمایا ہے پھر ویسا ہیہوتا جیسا فرماتے کبھی اس کے خلاف نہ ہوتا تھا۔ (سعادت دارین حصہ 2 ص 438)محترم قارئین بطور برکت یہ چند واقعات لکھے گئے جس سے آپ کو علامہ صاحب کے کمالات کا یقین ہو گیا ہوگا، اللہ کریم ہم سب کو زیادہ سے زیادہ عبقری کے فیض کو بانٹنے والا بنائے اور اکابر پر اعتماد نصیب فرمائے (مولانا قاری حافظ عطاء اللہ صاحب، جامعہ اشرفیہ، لاہور ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے حقیقت میں دیکھا وہ آنکھیں کتنی خوش نصیب ہیں جنہیں زندگی میں ایک مرتبہ خواب میں زیارت النبی صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہو جائے ۔۔۔! اور وہ وجود کتنے ہی سعادت مند ہوں گے جنہیں حالت بیداری میں زیارت باسعادت بار ہا نصیب ہوتی ہے ایسی سعادت مند ہستیوں میں آج کے دور میں علامہ لاہوتی پراسراری صاحب بھی ہیں، تاریخ کے اوراق سے چند واقعات اکابر پر اعتماد کے دوستوں کیلئے پیش خدمت ہیں:حضرت عبد اللہ بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن صالح کے انتقال کے بعد میں ان کے بھائی شیخ حسن بن صالح ”ل کے پاس تعزیت کیلئے آیا تو مجھے وہاں رونا آگیا وہ کہنے لگے کہ رونے سے پہلے ان کے انتقال کی کیفیت سن لو، کیسے لطف کی بات ہے کہ جب ان پر نزع کی تکلیف شروع ہوئی مجھ سے پانی مانگا جیسے ہی میں پانی لے کر آیا تو فرمانے لگے میں نے تو پانی پی لیا میں نے دریافت کیا کہ کس نے پلایا ؟ تو فرمانے لگے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں کی بہت سی صفوں کے ساتھ تشریف لائے تھے ، انہوں نے مجھے پانی پلا دیا۔ مجھے خیال ہوا کہ کہیں غفلت میں نہ کہہ رہے ہوں اس لئے پوچھا کہ فرشتوں کی صفیں کس طرح تھیں؟ بولے اس طرح اوپر نیچے تھیں اور ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کے اوپر کر کے بتایا۔ فضائل صدقات حصہ 2 ص 128 مصنف شیخ الحدیث مولانامحمد ذکریا، کتب خانہ فیضی)۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بالمشافہ حالت بیداری میں اور خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث سنیں اور بعض کی اصلاح بھی فرمائی جنہیں آپ نے ایک کتاب در ثمین“ کے نام سے شائع کیا۔(ماہنامہ الفرقان ولی اللہ نمبر )شیخ محمد بن ابی الحمائل کثرت سے بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا کرتے تھے یہاں تک کہ جب کسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے کہ میں اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرلوں اس کے بعد اپنا سر گریبان میں لے جاتے اور پھر فرماتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں یہ فرمایا ہے پھر ویسا ہیہوتا جیسا فرماتے کبھی اس کے خلاف نہ ہوتا تھا۔ (سعادت دارین حصہ 2 ص 438)محترم قارئین بطور برکت یہ چند واقعات لکھے گئے جس سے آپ کو علامہ صاحب کے کمالات کا یقین ہو گیا ہوگا، اللہ کریم ہم سب کو زیادہ سے زیادہ عبقری کے فیض کو بانٹنے والا بنائے اور اکابر پر اعتماد نصیب فرمائے.مولانا قاری حافظ عطاء اللہ صاحب، جامعہ اشرفیہ، لاہور
ایمان کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کا ذریعہ

(محمد قاسم متین، ایم فل اسکالر پنجاب یونیورسٹی ) میں اکابر پر اعتماد کے قارئین سے عرض گزار ہوں کہ زیادہ سے زیادہ اس پیج کو گروپوں میں شیئر کریں تا کہ مجھ جیسے بہت سے غافل اور اکابر سے بیزار اور ان پر زبان درازی اور ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے اکابر کے فیوض و برکات سے محروم نہ ہو جائیں۔۔۔! میری دلی دعا ہے اللہ پاک عبقری والوں کو جتنی خیر ملی ہے اس کے ذریعے سے قیامت تک اُمت کے ہر طبقے کو ہر فتنے سے محروم رکھیں ( آمین ) کیونکہ جس زمانے سے ہم گزر ہے ہیں یہ بڑا ہی پر آشوب اور فتنوں سے بھرا زمانہ ہے ، ہر طرف سے دلوں کو موہ لینے والی صدائیں ہیں ، آدمی کو پتہ نہیں چلتا کہ منزل کہاں ہے؟ ایسے وقت میں ہماری نجات کا بہترین راستہ یا طرز عمل یہی ہے کہ ہم جو کام بھی کریں اپنے اکابر کے سائے میں رہ کریں اور ا کا بر کی رہنمائی سے کریں خود رائی اور ا کا بر سے ہٹ کر جو کام بھی کریں گے وہ ہمیں اندھیری غار میں گرا دے گا۔۔۔! اگر ہم نے اکابر پر اعتماد نہ کیا تو جو حالت اب ہے اس سے بھی ابتر ہوتی جائے گی۔۔!میں ایک بات واضح طور پر آپ دوستوں سے عرض کر دوں کہ اگر ہماری صورتحال کو دیکھ کر کوئی مؤرخ لکھنا چاہے تو وہ ہماری حالت زار پر زیادہ الفاظ ضائع نہیں کرے گا بس اتنا لکھ دے گا دد گھر جل رہا تھا اور مکین ۔۔۔آپس میں کافر کا فرکھیل رہے تھے اپنے آپ کو بچانے کا راستہ اکابر پر اعتماد ہی بڑی خوشی ہے یہ بیج دنیا بھر میں اکابر پر اعتماد پھیلانے کا سبب بن رہا ہے ۔ اللہ کریم آپ کی محنت کو قبول فرمائیں اور اپنی شان کے مطابق جزائے خیر عطا فرمائیں ( آمین )
جنات کو تعلیم دینے اور مشورہ کرنے والے تبلیغی علامہ لاہوتی پراسراری

اکابر پر اعتماد پیج دیکھ کرادارہ عبقری کیلئے بڑی دعائیں نکلتی ہیں کیونکہ موجودہ دور میں علمی اور فکری گمراہیوں سے بچنے کیلئے عبقری کی خدمات نہایت قابل تحسین ہیں اس دور میں اسلاف پر بے اعتمادی۔۔۔۔ ہزار گمراہیوں کی ایک گمراہی ہے۔ تبلیغی جماعت کے بڑے بزرگ جو کہ اپنے وقت کے علامہ لا ہوتی صاحب ہی تھے ان کی جناتوں سے ملاقاتوں کے واقعات بہت کثرت سے ملتے ہیں ان میں سے چند آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:(1) مفتی محمد شاکر خان قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے بزرگ حضرت مولانا محمد یونس صاحب (جو کہ پونہ کے رہائشی اور علامہ لاہوتی صاحب کی طرح جنات سے ملاقات کرنے اور ان کو تعلیم دینے والے باکمال بزرگ تھے ) ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ سلیم تالاب صاحب نے کہا کہ مولانا یونس صاحب آخری سفر سے پہلے جامعہ انعام الحسن کونڈ وا تشریف لائے اورفرمانے لگے کہ بھئی مجھے جلدی واپس جانا ہے کیونکہ میرا جنات کے ساتھ مشورہ ہے۔(2) ایک مرتبہ اجتماع میں خدمت کے ساتھی کہنے لگے کہ ہم نے مجمع کے لحاظ سے خوب کھانا پکا یا لیکن کھانے کے وقت آدھا مجمع بھی نہیں آیا اور کھانا بہت بچ گیا ہم مولانا یونس صاحب کے پاس گئے اور ساری صورتحال عرض کر دی ۔ مولا نا فرمانے لگے کے مجمع میں بیٹھے لوگ جنات تھے جو بیان میں زیادہ نظر آرہے تھے وہ تمہارا کھانا نہیں کھاتے بلکہ ان کا الگ انتظام ہے اس لیے وہ وہاں سےچلے گئے۔ (3) مولانا یونس صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رات کو میرا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا میں ہڑ بڑا کر اٹھا، دروازہ کھولا تو چھوٹے چھوٹے ڈھیر سارے بچے ہاتھوں میں قرآن ، قاعدے اور ( بقول حافظ محبوب صاحب اپنے قد کے برابر بخاری و مسلم شریف) لیئے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم کو قرآن پڑھائیے میں نے کہا اتنی رات ( تین بجے ) کو پڑھنے آئے ہو تم کون ہو تو وہ کہنے لگے ہم جنات کے بچے ہیں۔ (4) مولانا یونس صاحب کے کمرے میں جنات بہت تھے اور یہ بات بہت مشہور تھی کہ آپ کے کمرے میں جو کوئی سوتا ہے جنات اسے سونے نہیں دیتے اور وہاں سے اٹھا دیتے ہیں ، مولانا فاروق صاحب بھی کہتے ہیں کہ ان کے کمرے میں جنات صرف انہی کو سونے دیتے تھے آپ کے علاوہ کسی کو نہیں سونے دیتے تھے۔ (5) حافظ محبوب صاحب انگلینڈ والے فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ مولانا کے ساتھ سفر میں مڈبہال پہنچا تو آپ سے عرض کی کہ یہاں جنات بھی آئے ہیں تو مولانا نے فرمایا کہ یہاں جنات کی پوری بستی آباد ہے۔( بحوالہ سوانح مولانا محمد یونس (پونہ)، ص212، مصنف: مفتی محمد شاکر خان قاسمی ، ناشر: فرید بک ڈپو، دہلی )محترم قارئین ! عبقری کے ایک ایک واقعہ اور تحریر کی سند کا اکابر کی کتابوں میں بکھری پڑی ہے اگر ہم اس پیج کو خود پڑھیں اور زیادہ سے زیادہ دوستوں تک پہنچا ئیں یہ ہماری دنیا اور آخرت میں بہت بڑی خیر کا ذریعہ ہے۔
قاسم العلوم کی حضرت صابر کلیری کے مزار پر با ادب حاضری اور فیض کا حصول

علامہ لاہوتی صاحب اور شیخ الوظائف دامت برکاتہم کے واقعات میں مزارات کی حاضری کا ذکر بار بار ملتا ہے اس سفر کو تعلیمات اکابر کی روشنی میں تلاش کیا جائے تو کتابوں کی کتابیں ان واقعات سے بھری پڑی ہیں ، ذیل میں اکابر پر اعتماد کے دوستوں کیلئے حجتہ الاسلام کی مزارات پر با ادب حاضری کا ایک واقعہ عرض کرتا ہوں جس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ عبقری کا کوئی ایک عمل بھی قرآن وسنت و تعلیمات اکابر سے ہٹ کر نہیں۔حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحب بانی دار العلوم اکثر سال میں کلیر شریف حاضر ہوتے اور اس انداز سے کہ میرے خیال میں آج بھی کوئی بزرگوں کا معتقد شاید (مزارات پر ) اس انداز سے نہ جاتا ہو، رڑ کی (جگہ کا نام) سے چھ میل کے فاصلے پر حضرت صابر کلیری کا مزار ہے اور نہر کے کنارے کنارے راستہ جاتا ہے ۔ تو آپ نہر کے کنارے پٹری پر پہنچ کر جوتے اتار لیتے تھے۔ چھ میل ننگے پیر طے کرتے وہاں پہنچ کر عشاء کی نماز کے بعد روضہ میں داخل ہوتے ۔ پوری رات مزار پر گزارتے تھے اس میں ریاضتیں ، مجاہدہ ، استفاضہ اور فیض حاصل کرتے اور صبح کی نماز کیلئے وہاں سے نکلتے ۔ حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب فرماتے ہیں کہ اگر وہ مزارات پر جانے کو نا جائز سمجھتے تو خود ننگے پیر مزارات کیلئے کیوں پیدل جاتے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی بھی ہندوستان میں جس قدر سلسلے کے اکابر ہیں سفر کر کے ان کے مزارات پر حاضر ہوئے ۔ حضرت شاہ محب اللہ صاحب الہ آبادی کا مزار الہ آباد میں ہے تو وہاں گئے ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اور حضرت خواجہ صابر کلیری کے مزار پر بھی آپ نے حاضری دی۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے اپنی مسند میں روایت نقل کی ہے کہ آداب زیارت میں سے ہے کہ قبلہ کی طرف پشت اور میت کی طرف چہرہ ہو اس لیے کہ وہ (مردہ) تمہاری بات سنے گا اور تمہیں دیکھتا ہے جب یہ تفصیل موجود ہے تو اولیاء اور صلحات کے مزارات پر بے ادبی اور گستاخی کسی طرح سے جائز نہیں اور اولیاء اللہ تو بڑی چیز ہیں صلحا مومنین کی قبروں کے ساتھ بھی گستاخی جائز نہیں ہے۔ قبر کو تکیہ لگانا، پھلانگ کر جانا قبر کی بے حرمتی ہے۔ جس شریعت نے اولیاء اللہ کی اتنی تو قیر کی ہو کہ ان کی زندگی میں بھی تہذیب سے پیش آؤ ان کی وفات کے بعد بھی ان کی قبروں سے تو قیر و تعظیم کا معاملہ کرو تو کون ہے جو ان کی قبروں کی بے ادبی کو جائز رکھے گا۔ (بحوالہ : خطبات حکیم الاسلام، ج 7، ص 10, 16 – ترتیب: مولانا نعیم احمد، مدرس جامعہ خیر المدارس ملتان، ناشر مکتبہ امدادیہ ملتانمحترم قارئین! پرفتن دور میں ایمان کی سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ اسلاف اور ا کا بر کے ساتھ اپنے دامن کو جوڑ لیا جائے۔۔! اللہ کے فضل سے ساری دنیا میں عبقری اور تسبیح خانہ کی کوشش یہی ہے کہ مرتے دم تم ہمارا دامن اپنے اکابر سے جدا نہ ہو آمین۔ (مفتی محمد فرقان محمود، فاضل جامعہ بنوریہ)