انسان کے بداخلاق ہونے میں جنات کا کردار

مولانا شبیر حسن چشتی نظامی رحمۃ اللہ علیہ فاضل دارالعلوم ) لکھتے ہیں کہ تفسیر فتح العزیز میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جنات کے 4 فرقے بیان فرمائے ہیں۔ پہلا فرقہ کافر جنات کا ہے جو اپنے کفر کو پوشیدہ نہیں رکھتے بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکئے، کھلم کھل طور پر انسانوں کو بہکانے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ ہم سے غیب کی خبریں پوچھا کر و مصیبت کے وقت ہم سے مدد مانگا کرو ہم تمہاری حاجت روائی اور مشکل کشائی کیا کریں گے ۔ ایسے جنات لوگوں سے کفر و شرک کرواتے ہیں اور انہیں اسلام قبول کرنے سے روکے رکھتے ہیں۔دوسرا فرقہ منافق جنات کا ہے جو خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے اپنے پوشیدہ مکر و فریب سے انسانوں کا نقصان کرنے کے درپے رہتے ہیں۔تیسرا افرقہ فاسق جنات کا ہے جو انسانوں کو ہر طرح سے مناتے ہیں ۔ اپنے لیے نذرونیاز مٹھائی شربت وغیرہ سب کچھ قبول کر لیتے ہیں۔چوتھا فرقہ ان جنات کا ہے جو چوروں کی طرح بعض لوگوں کی روح کو بد اخلاقی ، تکبر کینے اور حسد وغیرہ کی آلودگی کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں ( بحوالہ کتاب: جنات کے پر اسرار حالات، صفحہ 157 ناشر : آستانہ بکڈ پودہلی)محترم قارئین ! حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ آج کل عبقری میگزین میں حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ اپنے کالم جنات کا پیدائشی دوست میں جو انسانوں کو مختلف طریقوں سے جنات کے ستانے کے واقعات بیان فرماتے ہیں، یہ حقائق کوئی اس صدی کی پیداوار نہیں، بلکہ گزشتہ تمام اولیائے کرام نے مخلوق خدا کی خیر خواہی چاہتے ہوئے اسی طرح سے خبر دار کیا اور جنات کی شرارتوں سے بچنے کیلئے بے شمار وظائف عطا فرمائے۔ کیونکہ مخلوق خدا کو ایمان اعمال والی راہوں پر لانے کا کام ہر دور میں جاری رہا ہے۔ کام کبھی نہیں رکتا، بس چہرے بدل جاتے ہیں۔ پس آج کے دور میں اس عظیم منصب پر فائز حضرت علامہ لاہوتی پراسراری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے اور ان کیلئے جتنی بھی دعائیں کی جائیں، حق بنتا ہے۔
دار العلوم میں اپنی آنکھوں سے جنات کو دیکھنے والے عالم دین

مولانا شبیر حسن چشتی نظانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مجھے بعض اساتذہ کی زبانی معلوم ہوا کہ دار العلوم میں جنات بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ دار العلوم کے مہتمم حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک رات بارہ بجے گشت کے دوران دیکھا کہ ایک بند کمرے میں دوسانپ آپس میں کھیل کو د کر رہے ہیں، جبکہ ان کے سامنے کتابیں کھلی ہوئی موجود ہیں۔ حضرت مہتمم صاحب نے انہیں ڈانٹتے ہوئے فرمایا: یہ وقت کھیلنے کودنے کا ہے یا مطالعہ کرنے کا؟ یہ سنتے ہی دونوں سانپ انسانی شکل میں آگئے اور ان سے معذرت کرنے لگے کہ آئندہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔ اسی طرح طالب علمی کے زمانے میں حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میرے خصوصی تعلقات تھے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ شاہ صاحب ! میرا دل چاہتا ہے اپنی آنکھوں سے جنات کو دیکھوں۔ فرمانے لگے: اچھا ٹھیک ہے اس شب جمعہ میں تمہیں دکھا دیں گے۔ چنانچہ جمعے کی رات مجھے تقریباً ایک بجے اٹھا کر فرمایا: جاؤ، فلاں مقام پر تمہیں اس ہیئت کے دو شخص ملیں گے ان سے کوئی بات نہ کرنا۔ مجھے جنات کو دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ ننگے پاؤں ہی چل پڑا اور ان کے قریب پہنچ کر ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ دارالعلوم کی مسجد تک تو میرا اور ان کا ساتھ رہا لیکن مسجد میں داخل ہوتے ہی وہاں مجھے کوئی نظر نہ آیا۔ وہ دونوں جنات دراز قد اور سفید پوش تھے۔ آپس میں باتیں کر رہے تھے مگر میں نہ سمجھ سکا کہ وہ کس زبان میں گفتگو کر رہے ہیں ( بحوالہ کتاب: جنات کے پر اسرار حالات، صفحہ 162 ناشر : آستانہ بک ڈپو دہلی)
جنات اور انسانوں کی شادی ہونے کا ثبوت

محترم قارئین ! عبقری میگزین میں انسانوں اور جنات کی شادی کے متعلق جب مضمون شائع ہوا تو کچھ لوگوں نے لاعلمی کی بنیاد پر سوال اٹھایا کہ یہ کیسے قصے کہانیاں ہیں؟ جن کا شریعت سے کوئی ثبوت ہی نہیں ملتا ۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکابر” کا اس معاملے میں کیا فرمان ہے؟مولانا شبیر حسن چشتی نظانی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی شخص نے سوال پوچھا: کیا جن عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے ؟ فرمایا: ہاں جائز ہے بشرطیکہ دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کیا جائے ۔ اسی طرح فتاوی سراجیہ میں بھی جنات اور انسانوں کے نکاح کو جائز فرمایا گیا ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعثت نبوی صلی اللہ وسلم سے پہلے دیگر انبیاء کے زمانے میں جنات اور انسانوں کی شادی ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حضرت سلیمان علیہ السلام کی زوجہ ملکہ بلقیس کے ماں باپ میں سے ایک جن تھا۔ علامہ کمال الدین دمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مجھ سے ایک صالح شخص نے بیان کیا کہ میں نے 4 جن عورتوں سے نکاح کیا ہوا ہے۔ مجھے اس کی بات کا یقین نہ آیا اور میں نے کہا : یہ کس طرح ممکن ہے کہ لطیف اور کثیف جسم یکجا ہو سکیں ؟ لیکن کچھ عرصے بعد وہی شخص دوبارہ نظر آیا تو اس کے سر پہ پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میرا اپنی ایک جن بیوی سے جھگڑا ہو گیا تھا اس نے میرا سر پھاڑ دیا ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کے ایک طالب علم کا نکاح جن عورت سے ہو گیا۔ پھر جب اس عورت نے اپنے انسان خاوند کے پاس ضرورت سے زیادہ ہی آنا شروع کر دیا تو اس نے تنگ آکر حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے شکایت کی۔انہوں نے اسے ایک تعویذ عطا فرمایا، جس کے بعد اس جن عورت کی آمد ورفت بند ہوگئی ( بحوالہ کتاب: جنات کے پر اسرار حالات، صفحہ 152 ناشر : آستانہ بک ڈپو دہلی )
تسبیح خانے میں ہونے والی محفل ذکر حسین کا اکابر علماء سے ثبوت

محترم قارئین ! اکابر کی ترتیب کے مطابق حضرت شیخ الوظائف دامت برکاتہم العالیہ گزشتہ بر سے تبی خانہ قادری ہجویری میں 9 اور 10 محرم الحرام کو محفل ذکرمین کا انعقاد کر رہے ہیں۔ جس میں دنیا بھر سے بے شمار عاشقان اہل بیت شامل ہو کر شہدائے کر بڑا اور اہل بیت اطہار سلام الله ورضوانہ علیہ کی خدمت میں ذکر تنبیح ، درود شریف اور دیگر اعمال کا ایسال ثواب کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اس دو روزہ محفل میں کیے جانے والے اعمال اور اہل بیت عظام کی تو جہات کی برکت سے مخلوق ندائی گھر یلو پریشانیاں اور معاشی الجھنیں بہت جلد ختم ہو جاتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکابر و اسلاف میں کون کون سے علماء اپنے ہاں ہر سال اس مقدس و بابرکت محفل کا انعقاد کیا کرتے تھے؟ آج تم نے کتنا ایصال ثواب کیا ؟ شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف متالا صاحب مدظلہ فرماتے ہیں : قطب الاقطاب حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا کان علی بیمہ نے عاشوراء کے روز مدینہ منورہ میں ہم لوگوں سے سوال کیا کہ آج شہدائے کربلا کیلئے تم نے کتنا قرآن مجید پڑھا؟ الحمدللہ میں ن کیلئے مکمل قرآن پڑھ چکا ہوں (بحوالہ کتاب: کرامات دکمالات اولیا صفحه 20 ناشر: مکتبہ دارالاشاعت، کراچی) مسجد میں ہزاروں لوگوں کا اجتماع : مولانا محمد اسحاق بھٹی مرحوم لکھتے ہیں : اتر پردیش کے شہر سنجل ” میں ایک بہت بڑے بزرگ سائیں عبداللہ شاہ بجلی بھی رہتے تھے، جو عبادت گاہوں اور رفاہ عامہ کے کاموں میں کافی دلچسپی لیا کرتے۔ انہوں نے ایک بہت بڑی مسجد بھی تعمیر کروائی جس میں ہر سال دس محرم الحرام کو ایک جلسے کا اہتمام کرتے اور سیرت النمی سی ہی نہیں کی مشہور کتاب رحمۃ للعالمین مال کے مصنف علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ریشہ سے شہادت حسین اور واقعہ کربلا کے موضوع پر تقریر کرواتے ۔ ارد گرد کے ہزاروں لوگ اس جلسے میں شریک ہو کر قاضی صاحب کی تقریر سے متاثر ہوتے (حوالہ کتاب: تذکر قاضی محمدسلیمان منصور پوری صفحه 148 ناشر: مکتبہ قدوسیہ اردو بازارلا ہور) مختلف علاقوں میں ہونیوالی محافل ذکر حسین: حضرت مولانا قاضی مظہر حسین ہنہ دیعیہ چکوال میں ہر سال 9 اور 10 محرم کو شان حسنین کریمین کے عنوان پر بیان کیا کرتے تھے۔مولاناسید ظہیر احمد ہاشمی ہے یہ شاہ پور، سرگودھا میں سالانہ جلسہ شہدائے کربلا منعقد کیا کرتے تھے۔مولانا عبد الشکور لکھنوی میں یہ لکھنو میں نو اور دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کی خدمت میں ایصال ثواب کیلئے جلسے کا انتظام فرمایا کرتے ۔ جانشین امیر شریعت مولانا سید عطاء احسن بخاری بید یہ مجلس احرار کے زیر انتظام ہر سال مجلس ذکر حسین کا انعقاد کیا کرتے اور اس دوران سرخ رنگ کا لباس پہنتے ۔ حضرت خواجی پیر فضل علی قریشی برید یعہ کی خانقاہ مسکین پور شریف میں بھی اہل بیت اور شہدائے کربلا کے ایصال ثواب کیلئے ہر سال 10 محرم کو پروگرام کا انعقاد کیا جا تا۔ آپ ہری بیعہ کے بعد آپ کے خلیفہ مولانا غلام دستگیر صاحب ہیں عیہ نے بھی اسی ترتیب کو قائم رکھا اور اب ان کے بھتیجے محترم ڈاکٹر نثار احمد ۲۱، صاحب بھی ہر سال دس محرم الحرام کو پروگرام کا انعقاد کرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ کئی نامور اور گمنام اکا بر علمائے کرام ہیں، جو اپنی زندگی میں اہل بیت اطہار کے فضائل و مناقب بیان کرنے اور ان کی خدمت میں ایصال ثواب کی خاطر بڑے پیمانے پر ملے نعقد فرمایا کرتے۔ پھر ان کے جانشین حضرات نے بھی اس ترتیب و قائم رکھا یا کہ گوجرانوالہ کی کی سالوں سے دس محرم الحرام کو ایک بہت بڑی کا نفرنس ہوتی ہے، جس میں مختلف علماء کرام شان اہل بیت کے موضوع پر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ بیت الخلاء جانے سے پہلے جنات سے بچ جائیں عبقری میں ذکر کردہ جناتی حملوں کی گیارہویں دلیل جنات کی کارستانیوں کے مستند واقعات کے سلسلہ کی دسویں دلیل میں آپ نے پڑھا کہ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا نام نہ لیا جائے تو ” جنات“ گھر میں داخل ہو جاتے ہیں۔۔۔! آج گیارہویں دلیل میں آپ پڑھیں گے کہ ہمارے بیت الخلاء بھی جنات کے مورچے ہیں اور وہاں بیٹھے جنات ہر وقت ہماری گھات میں رہتے ہیں "ماہنامہ عبقری میں علامہ لاہوتی صاحب کے ذکر کردہ اس جناتی حملے کی دلیل سنن ابوداود، اور مسند امام احمد کی وہ روایت ہے جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ بیت الخلاء میں داخل ہونے سے قبل دعا پڑھنے سے جنات سے فاقت ہوتی ہے؟ حضور اکرم مالی ہی ہم نے ارشاد فر مایا کہ یہ قضائے حاجت کی جگہیں (بیت الخلاء) ایسی ہیں جن میں شیاطین حاضر ہوتے ہیں۔ پس تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت کی جگہ ( بیت الخلاء ) داخل ہونے لگے تو یہ پڑھ لے: بشير الله اللهم إني أعوذ بك من الحبيب والحجايت تسبیح خانہ کا پیغام اعمال سے پلنے، بننے اور بچنے کا یقین اسلامی تعلیمات کے سو فیصد موافق ہے۔۔۔!
اپنے بچوں کے کان میں اذان دے کر جنات کو بھگائیں۔۔۔!عبقری میں ذکر کردہ جناتی حملوں کی آٹھویں دلیل

جنات کی کارستانیوں کے مستند واقعات کے سلسلہ کی ساتویں دلیل میں آپ نے پڑھا کہ جنات کس طرح ہر وقت ہماری طاق میں رہتے ہیں۔۔۔ آج آٹھویں دلیل میں آپ پڑھیں گے کہ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دینا بھی اس وجہ سے ہے کہ تا کہ یہ بچہ جنات سے دور رہ سکے۔۔۔! "ماہنامہ عبقری میں علامہ لا ہوتی صاحب کے ذکر کردہ اس جناتی حملے کی دلیل سنن ابوداؤد اور سنن ترمذی کی وہ روایت ہے جس میں ذکر ہے کہ اذان سے شیطان بھاگتا ہے اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ بچے کی ولادت کے وقت نومولود کے کان میں اذان دے۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو جنم دیا تو رسول صلی ہی ہم نے ان کے کان میں اذان کہی” (امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ) عبقری میں ذکر کردہ جناتوں کے انسانوں پر حملوں کے مستند حوالہ جات اکابر پر اعتماد کے دوست اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔
گھر جانے سے پہلے دیکھ لیں جنات تو آپ کے ساتھ نہیں چمٹ گئے ۔۔۔!

عبقری میں ذکر کردہ جناتی حملوں کی چھٹی دلیل جنات کی کارستانیوں کے مستند واقعات کے سلسلہ کی پانچویں دلیل میں آپ نے پڑھا کہ جنات خوابوں کے ذریعے بھی انسانوں پر حملہ کرتے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج آپ پڑھیں گے کہ جب بھی آپ گھر جاتے اور کھانا کھاتے ہیں اس وقت بھی جنات آپ پر حملہ آور ہوتے ہیں ماہنامہ عبقری میں علامہ لا ہوتی صاحب کے ذکر کردہ اس دعویٰ کی دلیل صحیح مسلم کی وہ روایت ہے جو کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ وہ رماتے ہیں کہ میں نے رسول صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھاتے وقت اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان (جنات ساتھی جناتوں سے ) کہتا ہے کہ تمہارے لئے یہاں شب بسر کرنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ کھانا ہے اور جب گھر میں اخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان (جن اپنے ساتھی جناتوں سے ) کہتا ہے کہ تم نے شب بسر کرنے کی جگہ پالی, اور جب کھانا کھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان ( جن ) کہتا ہے کہ تم نے شب بسر کرنے اور کھانا کھانے کی جگہ پالی۔ عبقری میں ذکر کر وہ جناتوں کے انسانوں پر حملوں کے مستند حوالہ جات کا بر پر اعتماد کے دوست اگلی ملاحظہ فرمائیں۔
خبر دار جنات کے خوابوں سے ہوشیار رہیں ۔۔۔!
عبقری میں ذکر کردہ جناتی حملوں کی پانچویں دلیل جنات کی کارستانیوں کے مستند واقعات کے سلسلہ کی چوتھی دلیل میں آپ نے پڑھا کہ جماعت سے ٹوٹنا بھی جنات کی وجہ سے ہوتا ہے آج آپ پڑھیں گے کہ جنات خوابوں کے ذریعے بھی انسانوں پر حملہ کرتے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ”ماہنامہ عبقری میں ذکر کردہ اس دعوی کی دلیل حضرت انس ، حضرت ابوبکرہ ، حضرت ام العلاء ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت عائشہ ، حضرت ابوموسی ، حضرت جابر ، حضرت ابو سعید خدری ، حضرت ابن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے منقول روایات ہیں ان میں سے ایک روایت پیش خدمت ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یا پی ایم نے فرمایا : ” خواب تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک خواب وہ ہے جو سچا ہوتا ہے، ایک خواب وہ ہے کہ آدمی جو کچھ سوچتا رہتا ہے، اسی کو خواب میں دیکھتا ہے، اور ایک خواب ایسا ہے جو شیطان (جنات) کی طرف سے ہوتا ہے اور غم وصدمہ کا سبب ہوتا ہے، لہذا جو شخص خواب میں کوئی نا پسندیدہ چیز دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اٹھ کر نماز پڑھے ، آپ سی یا نیلم فرمایا کرتے تھے: ” مجھے خواب میں بیٹری کا دیکھنا اچھا لگتا ہے اور طوق دیکھنے کو میں نا پسند کرتا ہوں، بیڑی کی تعبیر دین پر ثابت قدمی ( جمے رہنا) ہے ، آپ صلی ا یتم فرمایا کرتے تھے : ” جس نے خواب میں مجھے دیکھا تو وہ میں ہی ہوں، اس لیے کہ شیطان میری شکل نہیں اپنا سکتا ہے، آپ صلی ای ام فرمایا کرتے تھے : ” خواب کسی عالم یا خیر خواہ سے ہی بیان کیا جائے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ عبقری میں ذکر کردہ جناتوں کے انسانوں پر حملے کے مستند حوالہ جات اکابر پر اعتماد کے دوست آئندہ اقساط میں ملاحظہ فرمائیں-
گوجرانوالہ میں جنات کو شرعی مسائل بتانے والی ہستی
محترم قارئین ! جنات کے پیدائشی دوست میں علامہ لاہوتی پر اسراری دامت برکاتہم کی جنات سے ملاقاتوں اور ان سے بات چیت کون سی نئی چیز ہے، جو عقل انسانی میں نہ سما سکے ؟ ہر دور میں ایسی ہستیاں گزریں، جن کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جنوں کا بھی مخدوم بنایا۔ حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحب سابق ایم این اے نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں حضرت صوفی صاحب ( مولانا عبدالحمید سواتی ” بانی جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) سے ملنے کے لیے آیا تو انھوں نے مجھ سے فقہ کا ایک سوال پوچھا کہ ایک جنس کی دوسری جنس سے شادی ہو سکتی ہے؟ یعنی انسان اور جن کی ؟ مجھے یہ جزئیہ یاد نہ تھا ، میں نے کہا کہ دیکھوں گا۔ جا کر میں نے فتاوی کی کتابیں چھان ماریں کہیں یہ جزئیہ نہ ملا۔ البتہ حضرت تھانوی کے مواعظ میں ایک جگہ یہ بات ملی کہ ایسا نکاح احناف کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ میں فوراً صوفی صاحب کے پاس حاضر ہوا اور بتایا کہ فقہ وفتاوی میں تو ایسی کوئی صراحت نہیں ملی البتہ حضرت تھانوی کے مواعظ میں یہ بات ملی ہے کہ جائز نہیں ۔ اس وقت حضرت صوفی صاحب مدرسہ میں نیم کے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے تو آپ نے نیم کی طرف منہ کر کے تین دفعہ فرمایا کہ "مسئلہ یہی ٹھیک ہے ۔ قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ نیم کی طرف منہ کر کے آپ فرما رہے ہیں ۔ بعد میں مجھے خیال آیا کہ یقیناً جنات نے ان سے ایسا مسئلہ پوچھا ہوگا ، یا ان کو نکاح کی پیش کش کی ہوگی۔ بحوالہ : ماہنامہ نصرۃ العلوم مفسر قرآن نمبر ۳۰۴ بحوالہ کتاب: اکابرین دیوبند کے واقعات و کرامات صفحه ۶۴۵ ، مصنف : حافظ مومن خان عثمانی ، ناشر: مکتبہ المیزان، اردو بازار لاہور محترم قارئین ! جنات سے ملاقاتیں گفتگو کرنا، ان سے وظائف پو چھنا یا بتانا یا ان سے احادیث کی روایات لینا ہمارے اکابرین میں تواتر سے چلا آرہا ہے، ضروری نہیں جو بات ہمیں معلوم نہ ہو تو ہم اس کا انکار ہی کر دیں ۔۔۔۔!
کوئی جن بھی آپ پر قابو نہ پا سکے۔۔۔۔!

علامہ لاہوتی صاحب کی جنات سے ملاقات کا انکار کرنے والے حضرات کیلئے یہ واقعہ سند کی حیثیت نہیں رکھتا۔۔۔۔ قسط نمبر 424) امام حاکم نے اپنی تاریخ میں اور امام دیلمی نے (مسند الفردوس) میں اور امام ابن عساکر نے حضرت ہشام بن عروہ سے روایت کیا وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے خلیفہ بننے سے قبل میرے والد عروہ بن زبیر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں نے گزشتہ شب ایک عجیب واقعہ دیکھا ہے میں اپنے گھر کی چھت پر بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ میں نے راستہ میں ایک شور سنا، میں نے جھانک کر دیکھا تو شیطان اتر رہے تھے یہاں تک کہ وہ میرے گھر کے پیچھے ایک ویران جگہ میں جمع ہو گئے پھر اہلیس آیا اور بلند آواز سے چلایا کہ میرے پاس عروہ بن زبیر کوکون پیش کرے گا؟ تو ان میں سے ایک جماعت نے کہا ہم پیش کریں گے چنانچہ وہ گئے اور واپس آئے اور کہا ہم ان پر بالکل قابونہ پاسکے۔ تو وہ دوسری مرتبہ پہلے سے بھی بلند آواز میں چیخا کہ عروہ بن زبیر کوکون میرے پاس لائے گا ؟ تو ایک دوسری جماعت نے کہا ہم پیش کریں گے تو وہ جماعت گئی اور کافی دیر گزرنے کے بعد واپس آئی اور کہا ہم بھی اس پر قابونہ پاسکے۔ پھر وہ (ابلیس) تیسری مرتبہ چلایا میں نے گمان کیا کہ شاید زمین پھٹ گئی ہے کون عروہ بن زبیر کو میرے سامنے پیش کرے گا ؟ تو جنوں کی ایک تیسری جماعت اٹھی اور چلی گئی بہت دیر کے بعد لوٹی اور کہا ہم بھی اس پر قابو نہ پاسکے۔ تو ابلیس غصہ میں گیا اور یہ جن بھی اس کے پیچھے پیچھے گئے تو حضرت عروہ نے حضرت عمر بن عبد العزیز سے فرمایا مجھ سے میرے والد حضرت زبیر بن العوام نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی یا اسلم کو فرماتے سنا ہے جو شخص رات اور دن کے ابتداء میں یہ دعا پڑھ لے گا اللہ تعالیٰ اس کو ابلیس اور اسکے لشکر سے محفوظ رکھے گا بِسْمِ اللهِ ذِي الشَّانِ عَظِيمِ الْبُرْهَانِ شَدِيدِ السِّلْطَانِ مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِیمِ “ ترجمہ : یعنی شان والے اللہ کے نام سے جو عَظِيْمِ الْبُرْهَانِ شَدِيدِ السُّلْطَانِ تمام بادشاہوں کا بڑا ) ہے جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔ حوالہ کتب : جنوں کی دنیا۔ صفحہ نمبر 272 تصنیف امام جلال الدین سیوطی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ ناشر مکتبہ برکات المدینہ کراچی پتا چلا عبقری میں شائع ہونے والے جنات کے پیدائشی دوست میں جنات سے ملاقاتیں کوئی نئی نہیں بلکہ تاریخ میں بکھرے ہزاروں واقعات اس کے شاہد ہیں۔
ساہیوال کا ایسا سکول جہاں پیشاب کرنے والے کو جنات سزا دیتے تھے

حضرت امیر شریعت، بطل حریت، خطیب اسلام مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے حیرت انگیز واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ ضلع ساہیوال کے ایک مڈل سکول میں جنات کا بسیرا تھا، جو وہاں کے طلباء اور اساتذہ کو سکول کے کسی بھی حصے میں پیشاب نہیں کرنے دیتے تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بڑے بڑے عامل بلوائے مگر سب کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مرتبہ حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے کسی مرید کے ذریعے معلوم ہوا تو فرمانے لگے : خدمت خلق کی خاطر میں وہاں جاؤں گا اور امید ہے کہ وہاں سے جنات کو نکال کر ہی آؤں گا۔ چنانچہ ایک دن حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ علیہ مقامی سکول تشریف لے گئے اور وہاں کے بچوں کو کہا کہ سکول کے ایک ایک کونے میں پیشاب کرو۔ بچے یہ سن کر ڈر گئے، کیونکہ انہیں پہلے بھی کئی مرتبہ جنات سے سزائیں مل چکی تھیں، لیکن شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمانے لگے: آپ گھبرائیں نہیں، میرے کہنے پر عمل کریں۔ اگر جنات نے کوئی نقصان پہنچانا ہوا تو سب سے پہلے مجھے پہنچا ئیں گئے کیونکہ میرے کہنے پر آپ نے ایسا کیا ہے۔ لہذا ابھی صرف پانچ بچوں نے ہی پیشاب کیا تھا کہ جنات کا سردار معافیاں مانگتے ہوئے حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور کہنے لگا: حضرت! کیوں ہمیں بچوں سے ذلیل کرواتے ہیں؟ فرمایا: اگر تمہیں اپنی بے عزتی کا اتنا ہی احساس ہے تو یہاں سے فوراً چلے جاؤ۔ ان معصوم بچوں کو تم نے ہراساں کیا ہوا ہے۔ جنات نے درخواست کی کہ ہمیں کچھ دنوں تک مہلت دی جائے تاکہ ہم اپنا کوئی نیا ٹھکانہ تلاش کرسکیں۔ فرمایا: نہیں ! تمہیں ابھی یہ جگہ چھوڑنی ہوگی۔ جنات نے پہلے سات دن کی مہلت مانگی، پھر ایک گھنٹے بعد نکل جانے پر راضی ہو گئے۔ بالآخر ایک گھنٹے بعد سارا سکول جناتی حملوں سے محفوظ ہو گیا۔ بعد میں اساتذہ نے بتایا کہ ہم جب یہاں باتھ روم بنانے لگتے تھے تو راتوں رات جنات انہیں بھی ملیا میٹ کر کے ملبے کا ڈھیر بنا دیتے تھے۔ سکول میں باتھ روم نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو دور دراز کے کھیتوں میں جانا پڑتا تھا۔ حضرت شاہ صاحب نے انہیں یقین دلایا کہ ان شاء اللہ آئندہ ایسانہیں ہوگا، اگر کبھی کوئی مسئلہ محسوس ہو تو مجھے اطلاع کر دیجئے گا۔ (بحوالہ کتاب: پرتاثیر واقعات، صفحہ 165 ناشر: مکتبہ یادگار شیخ اردو بازار لاہور )