یہ تیل ناک میں ڈالیں اور جنات سے نجات پائیں

یہ تیل ناک میں ڈالیں اور جنات سے نجات پائیںامام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک طالب علم سفر کر رہا تھا، راستے میں ایک شخص بھی اس کا ہم سفر بن گیا۔ جب شہر کے قریب پہنچا تو طالب علم سے کہنے لگا: میں ایک جن ہوں، مجھے تم سے ایک کام ہے۔ طالب علم پوچھنے لگا: وہ کیا؟ کہنے لگا: جب تم فلاں گھر میں جاؤ گے تو ان کی مرغیوں کے درمیان ایک سفید مرغ کو پاؤ گئے تم اس مرغ کو اس کے مالک سے خرید لینا اور اسی وقت ذبح کر دینا۔ طالب علم نے کہا: ٹھیک ہے مگر مجھے بھی تم سے ایک کام ہے: جب شیطان سرکش ہو جائے اور اس میں جھاڑ پھونک دم وغیرہ کام نہ آئے تو اس کا علاج کیا کرنا چاہئے؟ جن کہنے لگا: آسیب زدہ آدمی کے ہاتھوں کے دونوں انگوٹھوں کو مضبوطی سے باندھ لیا جائے ۔ پھر سداب بیری کا تیل نکال کر مریض کے دائیں نتھنے میں چار مرتبہ اور بائیں نتھنے میں تین مرتبہ ٹپکایا جائے، تو اس کا جن مرجائے گا اور بعد میں کوئی دوسرا جن بھی اس پر قابض نہ ہو سکے گا چنانچہ وہ طالب علم جب مطلوبہ مکان میں داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ بڑھیا کا ایک سفید مرغ ہے جسے وہ فروخت کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس نے اسے اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ رقم دے کر بیچنے پہ راضی کر لیا۔ جب اس نے مرغ کو ذبح کر دیا تو اسی وقت بڑھیا کے گھر والے اسے مارنے لگے۔ وہ کہتے تھے کہ جب سے تم نے مرغ کو ذبح کیا ہے کسی جن نے ہماری لڑکی یہ حملہ کر دیا ہے۔ طالب علم نے کہا : تم کہیں سے سداب بری کا تیل لے آؤ۔ لہذا جب اس نے جن کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق لڑکی کے ناک میں تیل ٹپکایا تو وہ جن چیخ پڑا اور کہنے لگا: کیا میں نے تمہیں یہ عمل اپنے ہی خلاف کرنے کا کہا تھا ؟ پھر اسی وقت وہ جن مر گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس لڑکی کو شفاء بخش دی اور اس کے بعد کوئی شیطان جن اس پر قابض نہ ہو سکا۔ ( بحوالہ کتاب: پرتاثیر واقعات، صفحہ 150 ناشر: مکتبہ یادگار شیخ اردو بازار لاہور)

ایسا عجیب و غریب پانی جسے پلانے سے قریب المرگ بچہ زندہ ہو گیا

امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا عبیداللہ انور صاحب رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن اکابر سے میں نے قرآن وحدیث پڑھی ہے وہ سورۃ فاتحہ کو ہر مرض کیلئے شافی علاج قرار دیا کرتے تھے۔ ہمارے محلے میں ایک ماسٹر صاحب پڑھاتے تھے ان کا بیٹا سوکھ سوکھ کر کمزوری سے بالکل لاغر ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا : اب اس پر مزید پیسے مت خرچ کریں یہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے آرام سے اس کی جان نکلنے دیجئے۔ ماسٹر صاحب نے اپنی اہلیہ کو بچہ دے کر والد محترم حضرت لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بھیج دیا۔ وہ روتی ہوئی ہماری والدہ مرحومہ کے پاس پہنچی تو اسے دیکھ کر والدہ مرحومہ نے فرمایا: میں روزانہ فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان 41 مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھ کے پانی پر دم کرتی ہوں، تم مسلسل 40 دن تک یہ دم والا پانی اپنے لاعلاج بیٹے کو پلا دو ۔ اگر اللہ نے اس کی زندگی رکھی ہوئی ہے تو ڈاکٹروں کی باتوں کی کوئی پروا نہیں۔ خدا کی شان دیکھئے کہ کچھ ہی دنوں میں فرق پڑتے پڑتے 40 دن میں بچہ مکمل طور پر صحت مند ہو گیا ( وہ ابھی تک زندہ ہے ایک جگہ دکان پر کام کرتا ہے ) چالیس دنوں بعد وہ عورت زنانہ کپڑے پھل اور نوٹوں کا ہار لیے میری والدہ مرحومہ کے پاس آگئی ۔ والد محترم حضرت لاہوری رحمۃاللہ علیہ نے ہدیہ لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا : ہم نے تمہیں کوئی دوا نہیں دی، کلام اللہ تو انہوں نے پڑھنا ہی ہوتا ہے ان کے دم میں تاثیر اللہ تعالیٰ نے ہی ڈالی اور تمہارے بچے کو شفاء اسی کلام مبارک سے ملی۔ پس تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ وہ بے چاری سادہ عورت تھی، کہنے لگی : آج تک تو ہم جہاں بھی گئے، لوگوں نے ہم سے دم کرنے اور تعویذ دینے کے پیسے لیے ۔ بہر حال سورۃ فاتحہ کے اس جیسے سینکڑوں واقعات ہیں، جن میں لوگوں کو شفاء ملنے کا بیان ہے ۔ آپ کو بھی کبھی کوئی مرض پیش آجائے تو سورۃ فاتحہ کا یہ عمل ضرور آزمائیں میری طرف سے سب کو اجازت ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ فجر کی سنتیں ادا کر کے 41 مرتبہ سورۃ فاتحہ مع اول آخر 3 بار درود شریف پڑھیں (ماخوذ از مجلس ذکر بحوالہ کتاب: پرتاثیر واقعات صفحہ 42 مصنف: مولانا ابواحمد طه مدنی ناشر: مکتبہ یادگار شیخ اردو باز از لا ہور ) نوٹ: قارئین ! سورۃ فاتحہ کایہ عمل حضرت شیخ الوظائف دامت برکاتہم العالیہ سالہا سال سے لوگوں کو عنایت فرمارہے ہیں۔ جو لوگ عبقری کے وظائف پر شک کرتے ہیں وہ اس بات کا مکمل اطمینان رکھیں کہ عبقریمیں کوئی بھی وظیفہ خود نہیں بنایا جاتا بلکہ اپنے اکابر و اسلاف ہی کا آزمودہ عمل بتایا جاتا ہے۔

ایک چھٹانک دال چاول سے پندرہ آدمیوں کی مہمان نوازی

محترم قارئین! جیسا کہ عبقری تسبیح خانے میں حضرت شیخ الوظائف دامت بر کاتہم العالیہ سالہاسال سے مخلوق خدا کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ ہماری نظر اسباب کے ہوتے ہوئے بھی مسبب الاسباب یعنی اللہ پاک جل شانہ پر جمی رہے اور اعمال سے پلنے اعمال سے بنے اور اعمال سے بچنے کا یقین ہمارے دلوں میں پختہ ہو جائے ۔ ان تعلیمات پر عمل کرنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ اور ہمارے مسائل اللہ تعالیٰ کے غیبی خزانوں سے کس طرح حل ہوں گے؟ آئیے دیکھتے ہیں! مولانا ابو احمد طه مدنی صاحب لکھتے ہیں کہ گرمیوں کے موسم میں پہاڑوں کی طرف تبلیغی جماعت کے ساتھ جانا ہوا۔ چونکہرمضان کا مہینہ تھا اس لیے آٹا چاول وغیرہ نہ خریدے ۔ مشورے میں یہ طے پایا کہ جہاں جارہے ہیں، وہیں سے خرید لیں گے ۔ دو پہر کے وقت ہم اپنی مطلوبہ جگہ ایک پہاڑی پر پہنچے جہاں صرف پانچ مکان اور ایک مسجد تھی۔ کھانا پکانے کا نظام میرے ذمے تھا۔ میں نے راشن چیک کیا تو صرف ایک آدمی کیلئے چاول اور تھوڑی سی دال تھی ۔ دکان کی تلاش کیلئے نکلے تو معلوم ہوا کہ یہاں تو کوئی دکان نہیں راشن اسی پہاڑی سی ملے گا جسے ہم صبح کے وقت پیچھے چھوڑ آئے تھے ۔ ہمارا ر ہبر بھی واپس جاچکا تھا، اس لیے ہمارا کہیں آنا جانا ممکن نہیں تھا۔ عصر کے وقت چارلوگ مزید آگئے، جنہوں نے رات ہمارے ساتھ ٹھہرنے کا پروگرام بنالیا۔ اب جماعت میں کل پندرہ آدمی تھے، جن کی افطاری اور سحری کا انتظام کرنا تھا۔ میں نے پریشان ہو کر امیر صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے فرمایا: کھانا میں خود پکاؤں گا تم ایک ساتھی کو لے کر قریبی جنگل میں چلے جاؤ۔ وہاں ہمیں کچھ جنگلی شہتوت اور زیتون زمین پر گرے ہوئے ملے جو ہم اٹھا کر لے آئے اور افطاری انہی سے کی۔اب امیر صاحب نے مجھے فرمایا کہ میں جو کچھ بھی کروں’ آپ خاموشی سے دیکھتے جانا۔ یہ کہ کر انہوں نے پانی سے بھر کر دو بڑے دیگچے چولہوں پر چڑھا دیے۔ ایک میں بس ایک چھٹانک دال چنا اور دوسرے میں قریب دو چھٹانک چاول ڈال کر کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔ جب کھانا تیار ہو گیا تو مغرب کی نماز کے بعد دستر خوان لگایا گیا۔ پندرہ ساتھیوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا سحری کے وقت بھی امیر صاحب کچھ پڑھ رہے تھے، چنانچہ سحری بھی پندرہ ساتھیوں نے پیٹ بھر کر کھائی ۔ فجر کی نماز کے بعد جب میں نے دیگچے کھولے تو ان میں دال اور چاول ابھی تک بچے ہوئے تھے۔ میری حیرانی کو دیکھتے ہوئے امیر صاحب کہنے لگے : آج تک کتابوں میں تو آپ نے پڑھا تھا کہ جہاں کھانا کم ہونے کا ڈر ہو سورۃ یاسین شریف پڑھو۔ آج آپ سب نے اس کا عملی نمونہ بھی دیکھ لیا۔(بحوالہ کتاب: پرتاثیر واقعات،صفحہ 40 ناشر: مکتبہ یاد گارشیخ اردو بازارلاہور )

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں سانپ کی سرگوشی

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ آرام کی غرض سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے سائے میں بیٹھے تو اچانک ایک کالا سانپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر اپنا منہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان کے قریب لے گیا۔ کچھ دیر بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سانپ کے کان کے قریب اپنا منہ مبارک لے جا کر کچھ فرمایا اس کے بعد وہ سانپ ایسے غائب ہوا جیسے اس کو زمین نگل گئی ہو۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اس سانپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب دیکھ کر ڈر گئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جانور نہیں، بلکہ جن تھا۔ فلاں سورت کی چند آیات بھول گیا تھا، انہی آیات کی تحقیق کیلئے جنات نے اسے بھیجا تھا۔ تم لوگ موجود تھے، اس لیے وہ سانپ کی شکل میں آیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک گاؤں میں پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس گاؤں کی ایک خوبصورت عورت پر ایک جن عاشق ہو گیا ہے۔ اس نے اسے اتنا پریشان کر رکھا ہے کہ وہ نہ کھاتی ہے نہ پیتی ہے بس مرنے کے قریب ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس عورت کو میں نے بھی دیکھا وہ ایسی تھی جیسے چاند کا ٹکڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکار کر فرمایا : اے جن! کیا تجھے معلوم ہے کہ میں اللہ کا رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں؟ تو اس عورت کو چھوڑ کر یہاں سے چلا جا۔ یہ سنتے ہی وہ عورت صحت یاب ہو گئی اور ہوش میں آنے پر اپنا منہ ہم سب سے چھپانے لگی ( بحوالہ کتاب : پرتاثیر واقعات صفحہ 95 مصنف: مولانا ابواحمد طه مدنی، ناشر: مکتبہ یادگار شیخ اردو بازار لاہور )

زندہ دھوبی کے جسم پر جہنم کا عذاب

محترم قارئین ! عبقری میگزین کے سلسلہ وار کالم جنات کا پیدائشی دوست میں بعض اوقات عالم برزخ کے چند محیر العقول واقعات شائع ہونے پر کچھ لوگ حوالہ مانگتے ہیں کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں کسی پر قبر کے حالات کیوں نہیں کھلے؟ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ جب ہم صحیح احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کادو قبروں کے عذاب کی اطلاع دینے والا واقعہ بھی ملتا ہے اور بعد میں آنے والے اکابر و اسلاف میں سے بھی کئی ایسی ہستیوں کے واقعات سامنے آتے ہیں، جنہیں قبر کے حالات دکھا دیے جاتے تھے۔ جیسا کہ حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے مولانا مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ نے بتایا کہ دلی کے دریائے جمنا میں سیلاب آیا جس سے قریبی قبرستان کی کچھ قبریں اکھڑ گئیں۔ ایک قبر کھلی تو کچھ لوگوں نے دیکھا کہ ایک مردے کی پیشانی پہ ایک چھوٹا سا کیڑا ہے وہ جب ڈنگ مارتا ہے تو پوری لاش لرز جاتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد لاش اپنی اصل حالت میں آجاتی ہے تو وہ دوبارہ ڈنگ مار دیتا ہے۔ پاس کھڑے لوگوں میں سے ایک دھوبی نے ایک کنکر پکڑ کے اس کیڑے کو مار دیا، مگر وہ کیڑا اپنی جگہ سے اچھلا اور اس دھوبی کی پیشانی پر ڈنک مارنے کے بعد وہیں جا کر لاش کو چمٹ گیا۔ اس ڈنک کی وجہ سے دھوبی چلانے لگا کہ مجھے ایسی تکلیف ہو رہی ہے، جیسے میرے جسم کے ایک ایک عضو میں ہزاروں لاکھوں سانپوں، بچھوؤں کے ڈنگ لگ رہے ہوں اور پورے جسم میں انگارے بھر دیے گئے ہوں ۔ چنانچہ وہ بے چارہ تین دن تک یونہی تڑپتے ہوئے انتقال کر گیا۔ مولانا مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ فرمانے لگے : میں سمجھ گیا کہ وہ دنیا کا کیڑا نہیں بلکہ عالم برزخ کے عذاب کی ایک شکل ہے جس کیلئے روحانی علاج کرنا پڑے گا۔ لہذا میں اس قبر کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور کچھ سورتیں (سورۃ یاسین اور سورۃ اخلاص وغیرہ) پڑھ پڑھ کے اس میت کو ہدیہ کرنا شروع کر دیا۔ ایسا کرتے ہی وہ کیڑا چھوٹا ہونا شروع ہو گیا اور کچھ ہی دیر کے مسلسل ایصال ثواب سے وہ کیڑا بالکل ختم ہو گیا۔ اس پر ہم لوگ بہت خوش ہوئے کہ اللہ پاک نے اس میت کو عذاب سے نجات دے دی ہے۔ پس ہم نے اس کا کفن درست کر کے قبر برابر کردی ( بحوالہ کتاب: پرتاثیر واقعات، صفحہ 246 مصنف: مولانا ابواحمد طه مدنی ناشر: مکتبہ یاد گار شیخ اردو بازار لاہور )

حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے جنات سے کیا سیکھا

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے مرشد حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کوفرماتے ہوئے سنا کہ میں ایک دن سفر پہ نکلا اور ایک پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر رات ہو گئی۔ وہاں میرا کوئی ہم سفر نہ تھا۔ اچانک مجھے وہاں سے کسی کی آواز آئی کہ : اندھیروں میں دل نہیں پگھلنے چاہئیں بلکہ محبوب رب کریم کے حاصل نہ ہونے کا خوف دلوں کے پگھلنے کا باعث بننا چاہئے۔ یہ سن کر میں حیران ہو گیا اور پوچھا: یہ آواز کسی جن کی ہے یا انسان کی؟ جواب ملا۔۔۔ یہ آواز اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے مومن جن کی ہے اور میرے ساتھ میرے بھائی مومن جنات بھی ہیں ۔ میں نے پوچھا: کیا ان کے پاس بھی وہ معرفت الہی ہے جو تمہارے پاس ہے؟ کہنے لگا : جی ہاں ! بلکہ ان کے پاس مجھ سے زیادہ معرفت ہے۔ اتنے میں دوسرے جن کی آواز آئی : بدن سے اس وقت تک خدا کا غیر نہیں نکلتا جب تک کہ دائمی طور پر بے گھر نہ رہا جائے۔ پھر تیسرے جن کی آواز آئی: جو اندھیروں میں اللہ تعالی کے ساتھ مانوس رہتا ہے اسے کسی قسم کا فکر نہیں ہوتا۔ یہ سن کر میری چیخ نکل گئی اور میں بے ہوش ہو گیا۔ کسی نے مجھے پھول سونگھا یا تو مجھے ہوش آئی۔ وہ پھول میرے سینے پر موجود تھا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے مجھے کوئی وصیت کرو۔ کہنے لگے : اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والے شخص کے دل کو ہی جلا بخشتا ہے، جو شخص غیر اللہ کی طمع کرتا ہے اس نے ایسی لایعنی جگہ پر طمع کی جو اس لائق ہی نہ تھی اور جو مریض ہمیشہ معالج کے پاس چکر لگائے اسے کبھی شفاء نہیں ملتی۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے الوداع کیا اور چلے گئے۔ میں ان جنات کے کلام کی برکت ہمیشہ اپنے دل میں محسوس کرتا رہتا ہوں (بحوالہ : تاریخ جنات و شیاطین، بحوالہ کتاب: پرتاثیر واقعات، صفحہ 160 مؤلف: مولانا ابواحمد طہٰ مدنی، ناشر: مکتبہ یادگار شیخ ، اردو بازار لاہور )

جنات کو راکھ کر دینے والا چھوٹا سا کلمہ

محترم قارئین ! بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ عبقری کے وظائف کس حدیث سے ثابت ہیں؟’ا کا بر پر اعتماد گروپ کے ممبرز کو پچھلی تین سواقساط میں معلوم ہو گیا ہوگا کہ عبقری کا ہر وظیفہ ہمارے اکابر واسلاف کے ذریعے شریعت سے ثابت ہے جیسا کہ مولانا ابو احمد طه مدنی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک شخص کسری (ایران) کے سفر پہ گیا، اس کی عدم موجودگی میں ایک شیطان جن نے اسی کی صورت میں آکر اس کی بیوی کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے حتی کہ اس جن نے آواز بھی اسی آدمی کی اختیار کر رکھی تھی، اس لیے اس عورت کو بھی کوئی شبہ پیدا نہ ہوا۔ جب وہ شخص سفر سے واپس آیا تو اس کی بیوی نے پہلے کی طرح اس کا کوئی استقبال نہ کیا ، نہ ہی اس کی خاطر اپنے آپ کو آراستہ کیا۔ اس شخص نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے بیوی سے پوچھا تو وہ کہنے لگی : تم کہاں گئے تھے؟ تم تو روز یہیں پہ میرے پاس ہوتے ہو۔ چنانچہ جونہی رات ہوئی تو وہ جن آگیا اور کہنے لگا: مجھے تمہاری بیوی سے محبت ہو گئی ہے، میں تمہاری شکل میں روزانہ اس کے پاس آتا رہا۔ تم مجھ سے ناراض ہونے کی بجائے دو میں سے ایک شرط مان لو۔ یا تو مجھے دن میں اپنی بیوی کے پاس آنے کی اجازت دے دو یا رات کو ! اس شخص نے مجبوری میں دن اپنے لیے منتخب کر لیا۔ ایک رات وہ جن آکر کہنے لگا: میں کئی راتیں تمہاری بیوی کے پاس آتا رہا اب قوم جنات کی طرف سے میری ڈیوٹی لگ گئی ہے کہ آسمان کے قریب جا کر راز کی باتیں چرا کر لاؤں ۔ اگر تم میرے ساتھ آنا چاہو تو آ جاؤ۔ چنانچہ وہ ایک خنزیر کی صورت میں میرے سامنے نمودار ہوا اور کہنے لگا: میری پیٹھ کے بال مضبوطی سے پکڑ لو تم عجیب و غریب چیزیں دیکھو گئے، مگر مجھ سے جدا نہ ہونا، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ پھر اس نے اوپر کی طرف پرواز کی حتی کہ آسمان کے ساتھ جاکر چمٹ گیا۔ وہاں میں نے ہاتف غیبی کا کلام سنا جو یہ تھا: لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله مَا شَاءَ اللهُ كَانَ وَمَالَمْ يَشَاءُ لَم يَكُن ۔ میں نے یہ کلمات یاد کر لیے۔ پھر وہ مجھے لے کر زمین پر اتر آیا۔ لہذا جب اگلی رات وہ میری بیوی کے پاس آیا تو میں نے یہی کلمات پڑھنا شروع کر دیے اس جن کی حالت خراب ہونے لگی۔ میں ان کلمات کو دہراتا گیا، حتی کہ وہ جن جل کر راکھ ہو گیا ( بحوالہکتاب: پرتاثیر واقعات صفحه 156 ناشر: مکتبہ یادگار شیخ ، غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور )

تسبیح خانے کے بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ والے عمل کا ثبوت

تسبیح خانے کے بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ والے عمل کا ثبوتکچھ عرصہ پہلے عبقری تسبیح خانے میں حضرت شیخ الوظائف دامت برکاتہم العالیہ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم بارہ ہزار مرتبہ پڑھنے کا ایک عمل ارشاد فرمایا تھا کہ جب ناممکن ترین مشکلات گھیر لیں اور پیچیدہ مسائل گھروں میں ڈیرہ جمالیں تو ان کے حل کیلئے پہلے دو رکعت نفل پڑھیں سلام پھیر کر ایک ہزار مرتبہ مکمل بسم اللہ پڑھیں ۔ پھر دو نفل پڑھیں، پھر ایک ہزار مرتبہ مکمل بسم اللہ ۔۔۔اس طرح 24 نوافل پڑھنے ہیں اور درمیان میں بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ پڑھنی ہے۔ یہ عمل ایک ہی نشست میں کرنا ہے یعنی جس دن یا جس رات شروع کریں، اسی دن مکمل کرنا ہے اور یہ عمل صرف ایک شخص نے کرنا ہے کئی افرادمل کر یہ عمل اجتماعی طور پر نہیں کر سکتے ۔ ہاں البتہ اپنا اپنا عمل گھر کا ہر فرد کر سکتا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اس عمل کے پیچھے کیسے کیسے جلیل القدر اکابر علمائے دین اور عظیم سلف صالحین کی دلیل موجود ہے۔ شہنشاہ عملیات حضرت علامہ خواجہ احمد دیر بی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : جو شخص مذکورہ بالا تر تیب کے مطابق بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ والا عمل کرے گا اس کی حاجت چاہے کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کے حکم سے پوری ہو جائے گی ( بحوالہ کتاب: مجربات دیر بی صفحہ 15 ناشر: فرید مبین پبلشرز ناظم آباد کراچی) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : مذکورہ بالا تر تیب کے مطابق نوافل کے دوران بارہ ہزار دفعہ بسم اللہ پڑھنا ہر قسم کی حاجات کے پورا ہونے کیلئے ایک تجربہ شدہ عمل ہے (بحوالہکتاب : اعمال قرآنی ،صفحہ 27 ناشر: حاجی شیخ غلام حسین اینڈ سنز’ تاجران کتب کشمیری بازار لاہور )بقیۃ السف حضرت مولانا محمد یونس پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بعض صالحین سے منقول ہے کہ جس شخص کو کوئی حاجت ہو وہ مذکورہ ترتیب کے مطابق بسم اللہ الرحمن الرحیم والا عمل کرے اور درود شریف پڑھ کے اپنی حاجت پورا ہونے کا سوال کرے۔ ان شاء اللہ حاجت اس کی جس طرح کی بھی ہوگی، پوری ہو جائے گی ( بحوالہ کتاب: بکھرے موتی ، صفحہ 333 ناشر بلسم پبلی کیشنز، اردو بازار لاہور ) حضرت مولانا اقبال احمد نوری صاحب لکھتے ہیں کہ : بسم اللہ شریف کی برکات سے کون واقف نہیں؟ اگر کوئی شخص اپنی مراد پوری کروانا چاہے تو اسے چاہئے کہ تازہ وضو کر کے ( درج بالا ترتیب کے مطابق ) بارہ ہزار مرتبہ بسم اللہ شریف پڑھے ان شاء اللہ ہر مراد پوری ہوگی ۔۔۔ یہ آزمودہ اور مجرب عمل ہے۔ (بحوالہ کتاب: شمع شبستان رضا جلد 4 صفحه 73 ناشر : قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش روڈ لاہور )

حضور سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بولنے والے بتوں کے منہ سے تصدیق

مولانا عطاء المصطفیٰ جمیل صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلے عام تبلیغ کرنے کا حکم ہوا تو مکہ کے مشرکین کو یہ بات نہایت ناگوار گزری اور ابوجہل، شیبہ کعب اور کنانہ نعوذ باللہ ساحر اور کذاب جیسے برے برے الفاظ کہنے لگے۔ ان میں سے ایک نے ولید سے پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ کہنے لگا کہ مجھے 3 دن سوچنے دو۔ ولید نے سونے چاندی کے دو بت بنائے ہوئے تھے۔ گھر جا کر اس نے مسلسل 3 دن ان کی پوجا کی اور کہنے لگا: اے میرے معبودو! میں اس عبادت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے بتاؤ محمد صلی علیہ وسلم سچے ہیں یا جھوٹے؟ اتنے میں مسفر نامی ایک کافر” جن بت کے اندر داخل ہو کر بولا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی نہیں ہیں، خبر دار ان کی تصدیق مت کرنا۔ ولید یہ سن کر خوش ہو گیا اور اگلے دن اپنا بت لے کر سب کے سامنے چلا گیا۔ سب نے اس بت کو سجدہ کیا۔ ساتھ ہی اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلا بھیجا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود بھی ساتھ تھے۔ جب سب لوگوں کے سامنے بت میں سے کافرجن کی آواز آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عبداللہ ! گھبرانے کی کوئی ضرورت السلام : نہیں، یہ قدرت کا ایک راز ہے۔ بہر حال اس محفل سے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمگین تھے ۔ اتنے میں انہیں ایک سبز لباس والا گھڑ سوار ملا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام پیش کیا اور عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کا مسلمان جن ہوں ۔ کوہ طور میں رہتا ہوں ۔ گھر آیا تو میری بیوی آج والا واقعہ بیان کرنے لگی کہ مسفر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے۔ لہذا میں اسی وقت نکل پڑا اور صفا و مروہ کے درمیان مسفر جن کو قتل کر کے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ہوں میری تلوار سے اسی کا خون ٹپک رہا ہے۔ میرا نام مہین بن العجبر “ ہے۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو اسی بت میں داخل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کروں؟ فرمایا : ہاں ! چنانچہ دوسرے دن پھر کافروں نے اپنے بت ہبل کو سامنے رکھ کے سجدہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلا لیا ۔ پھر کہنے لگے: اے ہمارے معبود! یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ آج بھی ان کی حقیقت بیان کیجئے۔ اتنے میں ہبل سے آواز آئی: اے مکہ والو! جان لو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں ۔ تم اور تمہارے بت جھوٹے ہیں ۔ تم لوگ گمراہ ہو۔ اگر تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے تو قیامت کے دن جہنم میں جاؤ گے۔ اٹھو اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرو کیونکہ یہ ساری مخلوقات میں سے افضل ہیں۔ ہبل کے منہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف سن کر ابو جہل غصے سے اٹھا اور اس بت کو توڑ دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے خوشی خوشی تشریف لے آئے۔ ( بحوالہ کتاب: جامع المعجزات فی سیر خیر البریات صفحہ 27 ناشر: فرید بک سٹال، اردو بازار لاہور )

رجال الغیب کا قرآن وحدیث میں ثبوت

محترم قارئین اتسبیح خانے میں ہونے والے شب جمعہ کے درس ہدایت میں حضرت شیخ الوظائف دامت برکاتہم العالیہ بعض اوقات رجال الغیب اولیائے کرام کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ ہماری اس کا ئنات میں کچھ ایسے مقربان بارگاہ الہی بندے بھی ہوتے ہیں، جن کی ڈیوٹیاں اللہ جل شانہ نے بعض مخصوص امور کی انجام دہی پر لگائی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ ایسی باتیں سن کر لاعلمی کی وجہ سے شرک کے شک میں پڑ جاتے ہیں، حالانکہ رجال الغیب ایک ایسا موضوع ہے، جس کے متعلق قرآن وسنت میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اللہ پاک جل شانہ نے سورۃ النازعات میں فرمایا ہے: فَالْمُدَتِرَاتِ آمرا ” ایسے فرشتے جو امور کی تدبیر میں لگے رہتے ہیں۔ یعنی بارش برسانا تو اللہ جل شانہ کا کام ہے، لیکن کب اور کہاں برسانی ہے، اس پر باقاعدہ فرشتہ مقرر ہے۔ رزق دینا اللہ جل شانہ کی شان ہے، لیکن مخلوق تک رزق پہنچانے پر فرشتے مقرر ہیں۔ اولا د دینا اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہے، لیکن حاملہ عورت کے پیٹ میں روح پھونکنے پر فرشتے کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح رجال الغیب اولیائے کرام کیلئے بھی مخصوص ڈیوٹیاں مقرر ہیں، جو وہ پوری ذمہ داری سے نبھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے اکا بر کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہما السلام بھی رجال الغیب میں شامل ہیں۔ مولانا امداد اللہ انور جامعہ اشرفیہ لاہور لکھتے ہیں : اہل بیت کے شہسوار حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام دونوں ہر سال موسم حج میں ملاقات کرتے ہیں اور ان کلمات پر علیحدہ ہوتے ہیں : بسم اللہ ماشاء الله لا يسوق الخير الا الله ، ما كان من نعمة فمن الله ،بسم اللہ ماشاء اللہ لا یصرف السوء الا الله ماشاء الله لا حول ولا قوة الا بالله یہ حدیث بیان کر کے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو شخص ان کلمات کو صبح و شام تین مرتبہ پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اسے غرق ہونے سے ،جل جانے سے، چوری ہونے سے،شیطان سے ، بادشاہ کے ظلم سے ، سانپ سے اور بچھو سے محفوظ رکھے گا (دار قطنی صفحه ۲۲۵، تاریخ ابن عساکر صفحه ۷۴۰ ، تہذیب تاریخ دمشق صفحه ۱۵۵، اتحاف السعادۃ صفحہ ۱۱۲ ، البدایہ والنہایہ صفحہ ۳۳۳، کنز العمال صفحه ۳۴۰، در منشور صفحه ۲۴۰ ، لسان المیزان صفحه ۹۲۰، شرح السنه صفحه ۴۴۳ بحوالہ کتاب: تاریخ جنات و شیاطین صفحہ 225 ناشر : دار المعارف تحصیل جلال پور، ملتان)

عبقری کا پتہ

جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025